’خداکی قسم میں کامیاب ہوگیا‘: حضرت علیؑ
امیرالمومنین حضرت علیؑ حقیقی اسلامی آئیڈیا لوجی کے ایسے حکمراں ہیں جو بیت المال کا مصرف عدالت اسلامی کے اصولوں پر اس طرح قائم کرتے ہیں کہ مساوات اور عدالت کا دامن مجروح نہیں ہونے دیتے-
غم و اندوہ سے بھری آج کی تاریخ فاتح خیبر و خندق امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام کی شہادت کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو امت اسلامیہ کے مہربان باپ کے فراق میں زمین و آسمان گریہ کناں ہیں۔ ایسا باپ جو یتیم بچوں کی آہ و بکا اور غموں میں ہمیشہ شریک رہا ہے۔ حضرت علیؑ وہ بہادر جن کو پیغمبر اکرمؐ نے کل ایمان قرار دیا- آپؑ کسی بھی حالت میں رہے ہوں، لوگوں کی ہدایت اور امت اسلامیہ کی خیرخواہی سے غافل نہیں رہے۔ اس تمام تر تنہائی اور منافقوں کی دشمنی کے باوجود علیؑ کے ایمان کی روشنی کبھی خاموش نہیں ہوئی، اپنے اور پرائے سب نے آپؑ سے فیض حاصل کیا۔ تاریخ اسلام میں حضرت علیؑ کو اپنی دیگر فضیلتوں کے ساتھ یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خانۂ کعبہ میں اور شہادت بھی خانۂ خدا مسجد کوفہ میں نصیب ہوئی۔ تاریخ اسلام میں ایسی فضیلت کسی فرد بشر کو حاصل نہ ہوسکی۔ حضرت علیؑ کی مثالی شخصیت جنھوں نے پیغمبر اسلامؐ کی دعوت پر کمسنوں میں سب سے پہلے لبیک کہا تھا اور رسول خداؐ کے اس مشن میں ہمیشہ آپؐ کی نصرت کی ہے۔ حضرت علیؑ کی مثالی زندگی نصرت حق وعدالت کا ایسا نمونہ ہے جس کے تصور کے بغیر تاریخ اسلام کا ہر باب نا مکمل ہوکر رہ جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس اسلام کی ایسی عظیم شخصیت جو ہر میدان میں کامیاب رہی ہو خواہ علمی ہو، شجاعت کا میدان ہو، سخاوت کا ہو وغیرہ وغیرہ۔ نہروان کی جنگ کے بعد خارجیوں کا گروہ آپ کا دشمن ہو گیا اور پھر منصوبہ بندی کر کے اس وقت کے ملعون ظالم عبد الرحمن ابن ملجم نے 19رمضان کو جب آپ مسجد کوفہ میں نماز فجر کے دوران محو سجدہ تھے، عدل انصاف کے پیکر کے سر مبارک پر زہر آلود تلوار سے بھرپور وار کر کے شدید زخمی کر دیا۔ عالم شجاعت کے شہنشاہ حضرت علیؑ کسی ردعمل کی بجائے فرما رہے ہیں’فزت و ربّ الکعبہ‘ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ یہ تلوار تین ہزار درہم دے کر زہر میں بجھائی گئی تھی۔ اسی حالت میں 21 رمضان المبارک 40 ہجری قمری کو ایسا شخص اس دنیا سے سدھار گیا جس کی عظمت و کمال سے دوست و دشمن سب حیران رہ جاتے تھے۔ آپ کو نجف اشرف میں دفن کیا گیا جہاں آج ہرسال دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمان زیارت کے لیے جاتے ہیں۔
عدالت کردارعلیؑ کا ایسا شیوہ ہے جو ضربت شہادت کھانے کے بعد بھی زخمی علیؑ کے دامن سے جدا نہیں ہوتا۔ جب آپ کے قاتل ابن ملجم کو گرفتار کرکے لایا جاتا ہے تو آپ نے اپنے بیٹے امام حسنؑ کو اس طرح ہدایت کی کہ دیکھو اس کے ساتھ نرمی کا برتاﺅ کرنا اور جو کچھ تم خود کھانا وہی اسے بھی کھلانا، اس کے خوف وحشت و اضطراب وگھبراہٹ پر رحم کرنا۔ عدالت کی آبرو کو قائم رکھنے والے علیؑ نے بستر شہادت پر بھی اپنے بیٹوں سے اپنے قاتل کے متعلق وصیت کی کہ اگر میں زندہ رہ گیا تو میں جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ کیا کروں گا لیکن اگر میں اپنے اس زخم سے جانبر نہ ہوسکا تو یہ مسئلہ تمہارے اختیار میں ہے لیکن اگر تم بدلہ لینا چاہتے ہو تو اس کی ایک ضربت کے عوض ایک ہی وارکرنا لیکن اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ تقویٰ سے نزدیک تر ہوگا۔
حضرت علیؑ اسلام کے ایسے حکمراں ہیں جوبیت المال کا مصرف عدالت اسلامی کے اصولوں پر اس طرح قائم کرتے ہیں کہ مساوات اورعدالت کا دامن مجروح نہیں ہونے دیتے، خواہ اس راہ میں ان کے اپنے حقیقی بھائی ہی کیوں نہ مطالبہ کریں۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت علیؑ کے بھائی عقیل (جو کہ نابینا بھی تھے) بھوکے اور پژمردہ بچوں کے ہمراہ جب امیرالمومنینؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیت المال سے اپنے لئے کچھ زیادہ حصہ کے طلب گار ہوئے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھائی کے بھو کے بچوں کو دیکھ کر بھائی کی محبت اصولوں پر غالب آجاتی مگر یہاں ایسا نہیں ہوا، آپؑ نے صاف طور پر اپنے بھائی کو نفی میں جواب دیا۔ انھوں نے اپنے جواب کے فلسفہ کو اپنے بھائی کے سامنے پیش کرنے کے لئے لوہے کی ایک سلاخ کو آگ میں تپا کر ان کے جسم کے قریب لے گئے جس سے وہ چیخ اٹھے، تب آپ نے کہا اے عقیل! تم دنیا کی آگ سے ڈرتے ہو اور میں جہنم کی آگ سے نہ ڈروں؟۔ آج کے اس دور میں یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ اس وقت اسلامی سربراہ مملکت کے پاس کوئی ذاتی ملکیت نہ تھی کہ وہ اپنے بھائی کا وعدہ پورا کرتے جبکہ آج سربراہان مملکت کی عیش پرستی، بین الاقوامی بینکوں میں اکاﺅنٹ ایک عام روش ہے کیا یہ طریقۂ کار امانت اور دیانتداری کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے۔
یہی سبب ہے کہ ہر زمانے کے حق بیں مورخین نے تاریخ انسانیت کے اس یکتائے زمانہ کو اپنا خراج عقیدت پیش کیا- دنیائے عیسائیت کا مشہور زمانہ مورخ جارج جرواق حضرت علیؑ کی عظیم المرتبت شخصیت آپ کے علم بیکراں، آپ کی عدالت، آپ کی انسان دوستی اور آپ کے مساوات کے جذبہ سے متاثر ہوکر لکھتا ہے کہ تم نے کوئی ایسا بادشاہ سنا ہے جو اپنے ہاتھ سے چکی پیسے اور اس سے اپنی خوراک کے لئے ایسی خشک روٹی تیار کرے جو زانو سے دبا کر توڑی جاسکے؟ مال دنیا سے تھوڑا یا کچھ بھی پس انداز نہ کرے کیونکہ اس کا مقصد سوائے مصیبت زدوں اور مظلوموں کی امداد کے اور کچھ نہ تھا تاکہ ظالموں سے ان کا حق وصول کرے اور ان کی زندگی کو خوش حال بنائے، جو کبھی کھانے، پینے اور چین سے سونے کی فکر میں نہ رہا کیونکہ اس کے ملک میں بعض آدمی ایک ایک روٹی کو محتاج تھے، بہت سے پیٹ بھوکے اور جگر بریاں تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔