شب برأت کا اہتمام کیسے کریں... محمد مشتاق تجاروی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ موت کا ذکر کثرت سے کیا کرو، موت کے ذکر کا ایک طریقہ قبرستان جانا بھی ہے، قبرستان جانے کا مطلب ہے تنہائی کے اس گھر کو دیکھنا اور عبرت پکڑنا۔
سب دن، سب راتیں، سارے ہفتے، سارے مہینے اور سارے سال رب العالمین کے بنائے ہوئے ہیں۔ سبھی مقدس ہیں، سبھی محترم ہیں اور سب اس مالک کا انعام ہیں۔ تاہم اگر ایک مہینے کو دوسرے مہینے پر کوئی فضیلت ہے تو رمضان المبارک کو سب مہینوں پر اور سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے بڑی نعمت یعنی قرآن کریم کو نازل فرمایا اور اس کے سلسلے میں خود فرمایا کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ چوں کہ ماہ رمضان کا پیش خیمہ اور ہراول دستہ شعبان المعظم ہے۔ اس لیے شعبان المعظم کا پورا مہینہ بھی فضیلت و برکت والا ہے۔ رسول اللہؐ شعبان کے اندر عبادت کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا اللہ کے رسول شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تھے۔ مزید فرمایا کہ رسول اللہ نے شعبان کے سلسلے میں یہ بھی ہدایت دی کہ "اتنا عمل کرو جتنا تم کر سکتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اجر دینے سے نہیں اکتاتا۔ یہاں تک کہ تم عمل کرنے سے نہ اکتا جاؤ۔‘‘ (بخاری)
شعبان المعظم کی فضیلت اور اس ماہ کے مبارک ہونے کا ذکر اور بھی متعدد روایات میں آتا ہے تاہم خاص 15 شعبان المعظم کی رات جس کو لیلۃ البرأۃ یا شب برات کہتے ہیں، اس کی فضیلت بھی بعض روایات میں آئی ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں کئی احادیث ہیں لیکن وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہیں۔ ایک روایت حضرت عائشہ سے مروی ہے۔ اس روایت میں ہے کہ پندرہ شعبان کی شب میں حضرت عائشہؓ نے رسول اللہؐ کو جنت البقیع کے قبرستان میں پایا۔ دوسری روایت حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے۔ اس میں ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک اور حاسد یعنی کینہ پرور کے۔ مختلف اسناد میں عبارت کے فرق کے ساتھ یہ روایات آئی ہیں۔ ان روایات کی روشنی میں اکابر امت اور سلف صالحین نے اس شب کو گزارنے کے لیے کچھ ہدایات اور کچھ طریقے متعین فرمائے ہیں۔ آج یہ مبارک ایک مرتبہ پھر میسر ہو گئی ہے۔ اس لیے آج ہم سب کو بزرگوں کے ان معمولات اور ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے ان ایام کو گزارنا چاہیے۔ یہ معمولات اس طرح ہیں:
(1) روزہ رکھنا:
ویسے تو ہر مہینہ میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں اور خاص شعبان میں روزوں کا مزید اہتمام کرنا چاہیے۔ تاہم پندرہ شعبان کا روزہ بھی خصوصی اہتمام کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ ایام بیض یعنی چاندنی راتوں کے دنوں کا روزہ ویسے بھی مستحب ہے اور آج کے دن کی تو خصوصی فضیلت بھی آئی ہے۔ اس لیے اس دن کا روزہ ضرور رکھیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک روزہ رکھیں یا دو چونکہ رسول اللہؐ نے عاشورہ کے موقع پر بجائے ایک کے دو روزے رکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اس لیے اس موقع پر اگر دو روزے رکھے جائیں، ایک پندرہ شعبان کا اور دوسرا اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا تو مناسب ہے اس طرح دو روزے ہو جائیں گے۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے، صرف ایک روزہ بھی رکھ لیں تو کافی ہے۔
(2) نوافل کا اہتمام:
پورے شعبان میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے اور پندرہ شعبان کی رات میں یعنی 14 شعبان کی شام سے 15 شعبان کی صبح تک نوافل کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ ایک روایت میں خصوصیت کے ساتھ اس رات میں نفل پڑھنے کے اہتمام کا عندیہ ملتا ہے۔ نفل نماز کے ساتھ مناجات کا بھی اہتمام کیا جائے۔ مناجات کا مطلب ہوتا ہے چپکے چپکے بات کرنا۔ یعنی اس رات میں خاص طور پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوں اور اپنے رب سے استغفار کریں۔ اپنے لیے اور اپنوں کے لیے دعائیں مانگیں۔ خود دوسرے لوگوں کو معاف کریں اور دوسروں سے معافی مانگیں۔ مشکلات پر صبر کرنے کا حوصلہ مانگیں اور زندگی کے ہر میدان میں اور زندگی کے دونوں حصوں (دنیا اور آخرت) میں امان و عافیت مانگیں۔ اللہ بہت دینے والا ہے اور بہت قریب ہے۔ وہ اتنا قریب ہے کہ دل کی بات بھی سن لیتا ہے اور بہت علیم و خبیر ہے۔ وہ اس کو بھی جانتا ہے جو ابھی ہوا ہی نہیں۔ وہ قادر مطلق ہے، کوئی بھی اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اس لیے اس سے مانگنا اور اس پر بھروسہ رکھنا سب سے بڑاسہارا ہے اور جس کو یہ حاصل ہو جائے اس کو جاننا چاہیے کہ اس کو سب سے بڑا انعام حاصل ہو گیا۔
(3) قبرستان جانا:
رسول اللہؐ کا فرمان ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو اور موت کو یاد کرنے کا ایک طریقہ قبرستان جانا بھی ہے۔ قبرستان جانے کا مطلب ہے تنہائی کے اس گھر کو دیکھنا اور عبرت پکڑنا۔ یہ یاد رکھنا کہ آج اس قبرستان میں جو لوگ مدفون ہیں، کل میں بھی ان کے ساتھ ہی دفن کیا جاؤں گا۔ یہ میرا بھی گھر ہے۔ مجھے بھی اسی میں آنا ہے اور منوں مٹی کے نیچے دفن ہوجانا ہے۔ قبر کو دیکھنا عبرت حاصل کرنے کی سب سے بڑی جگہ ہے اس لیے قبرستان جاتے رہنا چاہیے اور اس رات میں تو خاص طور پر جانا چاہیے اس لیے کہ اس شب میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم بھی قبرستان تشریف لے گئے تھے۔
قبرستان جانا عبرت کے لیے ہے اگر کوئی شخص قبرستان میں کھڑے ہو کر ہنس رہا ہو، قہقہے لگا رہا ہو یا دوسروں کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہا ہو تو اس کے لیے قبرستان جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جو قبرستان میں کھڑے ہو کر ہنس رہا ہے وہ زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے قبر اور موت دوسروں کے لیے ہے، میرے لیے نہیں ہے۔ اگر قبرستان میں جا کر انسان غور کرے۔ اپنے آپ کو وہاں دیکھے تو اس کی ہنسی ختم ہوجائے گی اور اس کو عبرت حاصل ہوگی۔ قبرستان جانے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو کھیل کود میں ضائع نہ کر دے، موت کو بھی یاد رکھے۔ قبرستان میں جانا اصل تو عبرت کے لیے ہے لیکن ساتھ ہی اس قبرستان میں مدفون لوگوں کے لیے دعائے مغفرت کرے، اپنے مرحومین کے لیے اولیائے امت کے لیے اور تمام مرحومین کے لیے دعا کرے، ان کے لیے ایصال ثواب کرے۔
پندرہ شعبان کی شب اور ان میں اوپر مذکور تین کام خصوصیت کے ساتھ کرے۔ اس کے علاوہ غریبوں کی مدد کرنا، ضرورت مندوں کو کھلانا، حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا وغیرہ دوسرے اعمال خیر میں بھی حصہ لینا چاہیے۔ یہ زندگی بہت مختصر ہے لیکن بہت قیمتی ہے۔ اس زندگی کا ایک ایک نیک کام ابدالآباد کی زندگی بڑے اجر و ثواب کا ذریعہ بنے گا۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی کوشش کرنی چاہیے اور کسی بھی نیکی کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے۔
شب برات کا موقع عبادت میں خصوصی اہتمام کے لیے ایک موقع ہے۔ اس موقع کا حق ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کی جائے، اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، اس سے توبہ کی جائے، اس سے معافی مانگی جائے اور اس سے نیک کاموں کی توفیق مانگی جائے۔ اس موقع پر پٹاخے پھوڑنا، شور و ہنگامہ کرنا، سڑکوں پر مٹرگشتی کرنا، موٹر سائیکل کے اسٹنٹ دکھانا وغیرہ کام اس موقع کی توہین ہیں۔ ان سے ہم سب کو پرہیز کرنا چاہیے۔ قبرستان میں جانا ہو تواول تو اپنے محلہ کے قبرستان میں ہی جائیں کہیں دور جانے کی بالکل ضرورت نہیں اور اگر کسی وجہ سے کہیں دور جانا پڑے تو ٹریفک کے پورے قوانین کا اہتمام کر کے جائیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم نیک کام کے لیے نکلیں اور ٹریفک کے قانون کا اہتمام نہ کریں۔ اس لیے اس رات کو اس کے شایان شان عزت و وقار کے ساتھ منانا چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ کے بندوں کی رفتار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ زمین پر دبے پاؤں یا نرم رفتاری سے چلتے ہیں۔ تو جب اللہ نے نرم رفتاری کے ساتھ چلنے کا حکم دیا ہے اور ہم اکڑ کر چلیں یا موٹر سائیکل سے اسٹنٹ لگائیں یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
شب برات کے بارے میں آخری بات یہ ہے کہ بعض لوگ اس رات کو قرآن مجید میں مذکور شب قدر کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ شب قدر رمضان المبارک میں ہے۔ اس میں قرآن مجید نازل ہوا، اس میں عبادت کرنا ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس میں تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ سورہ دخان میں جو تقدیر کے فیصلوں کی رات بتائی گئی ہے وہ بھی رمضان ہی کی رات ہے اس لیے کہ اسی سورت میں واضح طور پر نزول قرآن کو اس رات سے جوڑا گیا ہے۔ تو شب قدر اور شب برات میں التباس تو نہ کیا جائے لیکن شب برات بھی سال میں ایک بار آتی ہے، اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا خصوصی اہتمام کرتے ہوئے اس کے وقار اور عزت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ رات بسر کرنی چاہیے۔
(مضمون نگار محمد مشتاق تجاروی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔