ملک میں غربت کی صورتحال انتہائی تشویشناک، بھوک پر حکومتی دلیل کی پول کھول رہے ہیں اعداد و شمار

حکومت فخر سے کہہ رہی ہے کہ ہندوستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے اور اسے 5 ٹریلین ڈالر تک پہنچانے کا خواب پورا ہونے والا ہے لیکن گلوبل ہنگر انڈیکس نے ان دعووں کی ہوا نکال دی ہے

ہندوستان میں بھوک / Getty Images
ہندوستان میں بھوک / Getty Images
user

پربھات پٹنائک

پربھات پٹنائک

سال 2022 کے گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) ایک بار پھر اندازہ دیتا ہے کہ ہمارے ملک کی زمینی حقیقت کیا ہے۔ اس انڈیکس میں 121 ممالک کی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے اور ہندوستان اس انڈیکس میں 107 ویں نمبر پر ہے۔ 2014 میں جب نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو ہندوستان کا اسکور 29.1 تھا اور اس بار یہ 28.2 ہو گیا ہے۔ خیال رہے کہ انڈیکس جتنا کم ہوتا ہے غربت کی سطح اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔

ان دنوں حکومت کو بڑے فخر کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے اور وزیر اعظم مودی نے 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کا جو خواب دیکھا تھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے لیکن گلوبل ہنگر انڈیکس نے دعوؤں کی ہوا نکال دی ہے۔ حالت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں صرف ایک ہی ملک ہندوستان سے نیچے ہے اور وہ ہے افغانستان۔ سوچنے کی بات ہے کہ جنگ سے تباہ ہونے والے افغانستان کی درجہ بندی (109) ہندوستان سے زیادہ خراب نہیں ہے۔ مصیبت زدہ سری لنکا (64)، نیپال (81)، بنگلہ دیش (84) اور پاکستان (99) کی حالت ہم سے کہی بہتر ہے۔


یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان کا انڈیکس اتنا خراب ہے۔ بہت سے ماہرین کہتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں فاقہ کشی کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ایسے تمام عوامل کو بنیاد بنایا ہے جو حقیقت کو غیر جانبدارانہ انداز میں ظاہر کرنے والے ہیں۔ مثلاً فی کس یومیہ کیلوری کی کھپت اور فی کس سالانہ اناج کی دستیابی۔ اس طرح ان ماہرین نے بتایا کہ چونکہ بھوک میں اضافہ تو محض ایک علامت ہےاور اس کی اصل وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت ہے۔

بھوک سیکولر ہے اور ’این ایس ایس‘ کے اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ 2017-18 کے اعداد و شمار اتنے خوفناک تھے کہ حکومت نے بہتر سمجھا کہ رپورٹ کو عام ہی نہ کیا جائے۔ لیک ہونے والی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دیہاتوں میں حقیقی فی کس اخراجات میں 2011-12 اور 2017-18 کے درمیان 9 فیصد کی کمی آئی ہے۔ لیکن محققین کے ایک طبقے کا یہ بھی ماننا ہے کہ بڑھتی ہوئی بھوک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کے لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس دلیل کے دو رخ ہیں، ایک یہ کہ بڑے پیمانے پر میکانائزیشن کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ جسمانی مشقت کی ضرورت کم ہوتی گئی ہے اور اس لیے آج کے لوگوں کو اتنی کیلوریز کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب اناج پر کم خرچ کرتے ہیں۔ دوسرا، لوگ اپنی خوراک میں دیگر غذائی اشیا شامل کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ بچوں کی تعلیم اور صحت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔

اس دلیل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فی کس خوراک کی کھپت میں کمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غربت بڑھ رہی ہے بلکہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے اور اس لیے وہ اپنے اخراجات میں تنوع لا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غربت کم ہو رہی ہے، جیسا کہ حکومت اور ورلڈ بینک کا دعویٰ ہے۔


لیکن اگر کم خوراک کا استعمال حقیقتاً معیار زندگی میں بہتری کی علامت ہے، تو ہندوستان کے ساتھ ساتھ، اچھی شرح نمو کے ساتھ دیگر تمام ممالک جی ایچ آئی فہرست میں سب سے نیچے ہوتے لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ فہرست میں ہندوستان کے آس پاس کے ممالک زیادہ تر غریب ہیں اور فاقہ کشی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جیسے روانڈا (102)، نائیجیریا (103)، ایتھوپیا (104)، کانگو (105)، سوڈان (106)، زامبیا (108)، افغانستان (109) اور تیمور لیستے (110)۔ اس کے برعکس، جن ممالک کے ساتھ ہم اپنی اقتصادی کارکردگی کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں، مثلاً چین وہ فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ چین کا جی ایچ آئی اسکور 5 سے کم ہے جو کہ ہندوستان کے 29.1 (107وں مقام) سے بہت زیادہ بہتر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد اعلیٰ نمو والی معیشتوں میں سے کوئی بھی جس کا گلوبل ہنگر انڈیکس ہندوستان کے قریب ہے، خوراک کی کھپت میں کمی کی ایسی دلیل نہیں دیتا۔ میکانائزیشن یا بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرنے کی خواہش کی وجہ سے دستی مزدوری میں کمی کسی ہندوستانی کا خاصہ نہیں ہے، یہ ساری دنیا میں دیکھا جاتا ہے۔ پھر اعلی ترقی یافتہ معیشتوں میں صرف ہندوستان ہی جی ایچ آئی ٹیبل میں سب سے نیچے کیوں ہے؟


یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ بچوں کی تعلیم اور صحت کی مناسب دیکھ بھال کی خواہش ہر جگہ کے لوگوں میں عام ہو سکتی ہے اور یہ خدمات ہندوستان میں مہنگی ہیں جبکہ چین جیسے کئی ممالک میں سستی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستان میں والدین کو اپنے بچوں کو زیادہ مہنگے اسکولوں میں داخل کرانا پڑتا ہے اور اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کھانے پینے وغیرہ میں کٹوتی کرنا پڑتی ہے، جبکہ چین میں اسکول کی کم لاگت کی وجہ سے یہ صورتحال نہیں ہوتی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں بچوں کی بہتر تعلیم والدین کی ترجیح ہوتی ہے لیکن اگر کسی خاص ملک کے لوگوں کو اس کے لیے اپنی خوراک کو کاٹنا پڑے تو کیا یہ غربت کی علامت نہیں؟

اگر حقیقی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو ایک وقت کے لیے ان تمام چیزوں پر خرچ ہوتا ہے جن پر پیسہ خرچ ہوتا ہے اور اس سے تمام بالواسطہ اخراجات متاثر ہوتے ہیں لیکن اگر بالواسطہ یا بلاواسطہ اخراجات میں کمی آئی ہے تو اس کا سیدھا مطلب ہے کہ لوگوں کی حقیقی آمدنی میں کمی آئی ہے اور اسے عملی طور پر غربت میں اضافہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے پلیٹ کے مواد میں تبدیلی کا براہ راست تعلق غربت سے ہے لیکن حکومت اور عالمی بینک ایسا نہیں مانتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خیال میں ہندوستان میں غربت میں کمی آئی ہے۔


عالمی بینک غربت کی سطح کی پیمائش کرنے کے لیے 'خط افلاس' (غربت کی لکیر) کا استعمال کرتا ہے، جو اس سے نیچے ہیں وہ غریب ہیں۔ اس کے لئے فی کس آمدنی کی پیمائش کی جاتی ہے اور خط افلاس کو زندگی گزارنے کی لاگت کی بنیاد پر تبدیل کیا جاتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں اس انڈیکس کو تیار کرتے وقت زندگی گزارنے کے لئے ضروری اصل اخراجات پر غور نہیں کیا جاتا۔ اس کی بڑی وجہ تعلیم اور صحت جیسی خدمات کا نجی ہاتھ میں ہونا ہو سکتا ہے، جس میں ایک ہی سروس پر ہونے والے اخراجات مختلف ہوتے ہیں، اس لیے غربت کی صحیح صورت حال معلوم نہیں ہو پاتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔