سر سید احمد خاں اور سیکولرازم، یوم پیدائش کے موقع پر خصوصی پیشکش...شاہد صدیقی علیگ
’’اے عزیزو! ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے، ہندوستان کی ہی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں اور مقدس گنگا-جمنا کا پانی پیتے ہیں، اسی کی زمین کی پیدا وارا ہم دونوں کھاتے ہیں‘‘
سرسید احمد خاں ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ دنیا کی ان چند عظیم شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے ہر شعبہ ہائے حیات میں اپنے لافانی نقوش مرتب کیے۔ وہ عظیم الشان مغلیہ سلطنت کے زوال اور کمپنی بہادر کے عروج کے عینی شاہد تھے۔ انہوں نے ملک و قوم کی رہنمائی کے لیے صفحہ قرطاس پر جو جذبات، احساسات اور تاثرات پیش کیے تھے اسے پڑھ کر ہی اے او ہیوم (سابق کلکٹر اٹاوہ) نے کانگریس کی داغ بیل ڈالی تھی۔ آج جب ملک کی تاریخ ہر ممکنہ پہلو سے مسخ کی جا رہی ہے، اسکول و کالج کی نصابی کتابوں سے جمہوری اقدار اور ملک کی تکثیریت کے پہلو حذف کیے جا رہے ہیں، واٹس اپ یونیورسٹی سے منافرت اور انتشار عام کرنے کا مواد ذہنوں میں بھرا جا رہا ہے۔ صدیوں سے ایک گھاٹ کا پانی پی رہیں ہندوو مسلمانوں کے مابین نفرت و عداوت پیدا کرنے کے نئے نئے جواز تلاش کیے جا رہے ہیں۔ جس کو ہر کس و ناکس بے بسی و لاچاری سے دیکھ رہا ہے۔ ایسے دگرگوں حالات میں سر سید احمد خاں جیسے سیکولرازم کے علمبردار کے نظریات کو عام کرنے کی اہم ضرورت ہے، جنہوں نے یکے بعد دیگرے مواقع پر اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ اہل ہند کو تلقین کی۔
سر سید احمد خاں نے 27 جنوری 1883 کو پٹنہ میں ہندو و مسلمان دونوں کو یوں نصیحت کی تھی ’’اے میرے دوستو! تمہارے ملک ہندوستان میں دو مشہور قومیں آباد ہیں جو ہندو اور مسلمان کے نام سے مشہور ہیں۔ جس طرح کہ انسان میں بعض اعضائے رئیسہ ہیں، اسی طرح ہندوستان کے لیے یہی دونوں قومیں بمنزلہ اعضائے رئیسہ کے ہیں۔ ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا ندورنی خیال یا عقیدہ ہے جس کا بیرونی معاملات اور آپس کے برتاؤ سے کچھ تعلق نہیں ہے۔
اے عزیزو! ہندوستان ہی ہم دونوں کا وطن ہے، ہندوستان کی ہی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں اور مقدس گنگا-جمنا کا پانی پیتے ہیں۔ہندوستان ہی کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں۔ مرنے میں جینے میں دونوں کا ساتھ ہے۔ ہندوستان میں ہم دونوں بہ اعتبار اہل وطن ہونے کے ایک قوم ہیں اور ہم دونوں کے اتفاق اور باہمی ہمدردی اور آپس کی محبت سے ملک کی اور ہم دونوں کی ترقی و بہبود ممکن ہے اور آپس کے نفاق اور صندو عداوت، ایک دوسرے کی بدخواہی سے ہم دونوں برباد ہونے والے ہیں۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتے۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے سر سید خاں کے کشادہ ذہن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابنائے وطن کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک آپسی میل و محبت اور ہمدردی انسانی زندگی کے لیے لازمی عنصر تھا، جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ خوشحال نہیں رہ سکتا لیکن اس سے بڑی مضحکہ خیز بات کیا ہوگی کہ آج پورے ملک میں بعض ناعاقبت اندیش اور کوتاہ نظر عناصر کی جانب سے ایک مذہب، ایک زبان اور ایک تہذیب کے چلن کے لیے نئے نئے حیلے آزمائے جا رہے ہیں، جو ملک کے سیکولر ڈھانچے اور آئین کی روح کے منافی ہے لہٰذا ایسے سلگتے ماحول میں سرسید کے تفکرات سے ہر ہندوستانی کو متعارف کرانا حالات کا اہم تقاضا ہے کیونکہ اتحاد و اتفاق ہی ملک و قوم کی کامیابی کی کنجی ہے۔
سر سید کے نظریہ نیشن کے معنی ہندو اور مسلم ہیں۔ وہ دونوں کو وطن کی دو آنکھیں سے تعبیر کرتے تھے۔ انہوں نے انڈین ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 3 فروری 1884 کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”مجھ کو پورا یقین ہے کہ مجھ سا شخص ہندوستان کی قانونی کونسل کی ممبری اور جوبڑی جواب دہی اس ممبری سے متعلق ہے اس کو اپنے ذمہ لینے کے لائق نہ تھا۔ میں خود ان مشکلات سے واقف تھا، جو میرے راستے میں حائل تھیں، مگر باوجود اس کے میری یہ دلی تمنا تھی کہ میں اپنے ملک اور اپنی قوم کی وفاداری کے ساتھ خدمت کروں۔ لفظ قوم سے میری مراد ہندو مسلمان دونوں سے ہیں یہی وہ معنی ہیں جس میں لفظ نیشن (قوم) کی تعبیر کرتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ امر چنداں لحاظ کے لائق نہیں کہ ان کا مذہبی عقیدہ کیا ہے۔“
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عہد وسطی ہند میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو یکساں حقوق حاصل تھے۔ انہیں مذہب و ذات یا زبان کے اعتبار سے کسی تفریق کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا، مگر کمپنی بہادر نے قدم رکھتے ہی سب سے پہلی ضرب ہندوستان کی ہم آہنگی، بھائی چارے اور آپسی رشتوں پر لگائی، کیونکہ اس کے بغیر انگریز برصغیر میں ایک بھی دن راج نہیں کر سکتے تھے۔
سرسید نے اگر ایک طرف مغلیہ دربار کی رواداری دیکھی تو دوسری جانب تاجران فرنگ کے زہریلے ہتھیار ’پھوٹ ڈالو راج کرو‘ کا زہر پھیلتے ہوئے بھی دیکھا، لہٰذا اس کے جراثیم سے بچانے کے لیے سرسید نے متعدد مرتبہ اہل وطن کو ہر زاویہ سے سمجھانے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا ’’اے ہندو اور مسلمانو! کیا تم ہندوستان کے سوا اور ملک کے رہنے والے ہو۔ کیا اسی زمین پر تم دونوں نہیں بستے۔ کیا اسی زمین پر تم دفن نہیں ہوتے ہو یا اسی زمین کے گھاٹ پر جلائے نہیں جاتے۔ اسی پر مرتے ہو اور اسی پر جیتے ہو، تو یاد رکھو کہ ہندو اور مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے ورنہ ہندو، مسلمان اور عیسائی جو اسی ملک میں رہتے ہیں، اس اعتبار سے سب ایک ہی قوم ہیں۔“
زندہ اور غیور قومیں ماضی کے واقعات کو نفرت پھیلا نے کا آلہ بنانے کے بجائے اس سے درس بصیرت حاصل کرتی ہیں اور اپنے حال کو تابناک بناتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتی ہیں لیکن جو قوم عظمت رفتہ سے سبق حاصل نہیں کرتی ان کا آنے والا کل بھی تاریک ہوتا ہے چنانچہ تمام ہندوستانیوں خصوصاً علیگ برادری کی اہم ذمہ داری ہے کہ خواب غفلت سے بیدا ر ہو کر سر سید احمد کی دکھائی ہوئی روش کو اختیار کریں اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب و تاریخی میراث کی حفاظت کے لیے ہمہ تن مصروف ہو جائیں جو وقت کا اہم فریضہ ہے، یہی سرسید احمد خاں کے تئیں سچا خراج عقیدت ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔