شردھا قتل معاملہ: ہندوتوادی چشمے کو اتارنا ہی ہوگا... (کویتا کرشنن کا مضمون)

شردھا کا قتل بہیمانہ انداز میں کیا گیا ہے، اس کے قصوروار کو سزا ملنی ہی چاہیے، لیکن اسے ’لو جہاد‘ کے طور پر دیکھنا گھریلو تشدد کی شکار بڑی خاتون آبادی کے ساتھ ناانصافی ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آواز بیورو

ایک طرف جہاں پولیس اور فریق استغاثہ شردھا کے ساتھی اور قاتل کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے ثبوت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں، اور عام لوگ صدمہ، حیرانی اور غصے کے ملے جلے جذبہ میں۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اس سے بچنے کا طریقہ کیا تھا؟ کیا خواتین کے خلاف اس طرح کے قتل اور تشدد کو روکا جا سکتا ہے؟ اس معاملے میں سماج اور ادارے کیا کر سکتے ہیں۔

وقت پر کارروائی:

میں نے ایسے تمام سوشل میڈیا پوسٹ پڑھے ہیں جن پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان پوسٹس میں کہا گیا ہے کہ شردھا اور آفتاب میں محبت تھی، وہ کئی سالوں سے ساتھ رہ رہے تھے اور ایک دن جب شردھا نے شادی کی بات کی تو آفتاب نے اچانک گلا گھونٹ کر اس کا قتل کر دیا۔ مجھے یقین ہے، یہ ’اچانک‘ نہیں ہوا ہوگا۔ عام طو رپر بوائے فرینڈ/شوہر عورت کو طویل وقت تک ظلم کرنے کے بعد ہی اس کا قتل کرتے ہیں۔ عورت کو گھریلو تشدد کی شکل میں اس کا اشارہ کافی پہلے سے ملنے لگتا ہے اور وقت پر ہوشیار ہو جانے سے عورت کی جان بچ سکتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ گھریلو تشدد کو عام طور پر ’نجی معاملہ‘ یا پھر یہ مان کر کہ ’پریمی جوڑا‘ جھگڑ رہا ہے، بیشتر لوگ اس میں نہیں پڑتے ہیں اور نہ ہی اس کی رپورٹ کرتے ہیں۔


غلط سوچ:

عام سوچ یہ ہے کہ خواتین گھریلو تشدد سے متعلق قوانین کا غلط استعمال کرتی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر خواتین اس طرح کی زیادتیوں کی شکایت ہی نہیں کرتیں۔ تشدد کے بیشتر معاملوں میں مرد بعد میں افسوس ظاہر کرتا ہے اور خواتین اس بات پر یقین کرنا چاہتی ہیں کہ اس کے اوپر زیادتی کرنے والا مرد دراصل اس سے پیار کرتا ہے اور وہ پھر ایسا نہیں کرے گا۔ بڑی تعداد ایسے معاملوں کی ہوتی ہے جن میں عورت کو مرد یہ یقین دلا دیتا ہے کہ اس کا خود کا سلوک ایسا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا ہوش گنوا بیٹھا۔ بیشتر معاملوں میں خواتین شادی کو بچانے کے لیے سب برداشت کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ خواتین کے لیے کام کرنے والی تنظیموں یا پولیس سے رابطہ کرتی ہیں تو انھیں یہ امید ہوتی ہے کہ ایسا کر کے وہ شوہر کو متشدد ہونے سے روک سکتی ہیں۔

الگ تھلگ نہ چھوڑیں:

الگ ذات یا الگ مذہب میں محبت/شادی میں خواتین کے لیے گھریلو تشدد کی حالت میں مدد پانا مزید مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ اکثر کنبہ ان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اگر کنبہ نہ بھی چھوڑے اور صرف اس رشتے کو قبول نہ کرے تو بھی لڑکی اپنے ساتھی کی شکایت سے جھجکتی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے گھر والوں کا تعصب ہی درست ثابت ہوگا۔

میں برہمن فیملی میں لو میرج کے معاملوں میں بھی اکثر ایسا ہی پاتی ہوں۔ جب ایک برہمن لڑکی اور برہمن لڑکا محبت کی شادی کرتے ہیں تب بھی خاتون یہ بتانے میں جھجکتی ہے کہ اس کا شوہر شرابی ہے یا اس کی ازدواجی زندگی میں گڑبڑی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خاتون کا کنبہ محبت کی شادی کو قبول نہیں کرتا۔ اسی طرح ایک طالبہ اس خوف سے والدین کو جنسی استحصال یا عصمت دری کی شکایت کرنے سے جھجکتی ہے کہ کہیں سیکورٹی کے نام پر اس کی تعلیم ہی نہ روک دی جائے۔


ساتھی کے تشدد آمیز برتاؤ کو نظر انداز نہ کریں:

اجنبیوں کی جگہ رشتہ داروں کے ہاتھوں گھر کے اندر ہی خواتین کو مارے جانے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ مردوں کے گھر والوں کے مقابلے اجنبیوں کے ہاتھوں مارے جانے کا اندیشہ زیادہ رہتا ہے۔ 2012 میں اقوام متحدہ کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ عالمی سطح پر قتل کی شکار خواتین میں سے تقریباً نصف کو ’نزدیکی‘ لوگوں نے مارا جب کہ مردوں کے ایسے ہی مارے جانے کا فیصد 6 سے بھی کم تھا۔ ستمبر 2014 میں دہلی ہائی کورٹ کی ایک بنچ نےھ اپنے ہی گھروں میں خواتین کی بڑی تعداد میں قتل پر تبصرہ کیا کہ ’’ایسا لگتا ہے ہندوستان میں شادی شدہ خواتین گھروں کے مقابلے سڑکوں پر زیادہ محفوظ ہیں۔‘‘

مدد کے لیے کیا کریں:

کہنے کی ضرورت نہیں کہ شردھا کو انصاف ملے اور آفتاب کو اس کے کیے کی سزا۔ لیکن کیا ہمارے لیے سوشل میڈیا پر آفتاب کے لیے ناراضگی، نفرت اور غصہ ظاہر کرنا ہی کافی ہے؟ اگر ہمیں خواتین کے خلاف ہو رہے تشدد سے لڑنا ہے تو مزید بہت کچھ کرنا ہوگا۔

(الف) ہمیں گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے بہتر ہیلپ لائن نظام اور زیادہ اچھے شیلٹر ہاؤس بنانے ہوں گے۔ ابھی بیشتر ہیلپ لائن فنڈ میں کٹوفی اور شیلٹر ہاؤس وسائل کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ پی ڈبلیو جی ڈی وی اے (گھریلو تشدد سے خواتین کی حفاظت کے لیے شہری قانون) کے تحت سیکورٹی افسر معاملوں کے بوجھ سے دبے ہیں اور ان کے پاس ٹریننگ، رہنمائی اور وسائل کی کمی ہے۔ سب سے بڑی بات، کئی پناہ گاہوں کو جیلوں کی طرح چلایا جاتا ہے، نہ کہ ان جگہوں کی طرح جہاں خواتین محفوظ محسوس کریں اور اپنا حوصلہ حاصل کر سکیں۔

(ب) ہمیں سمجھنا ہوگا کہ گھر میں غلط سلوک اور تشدد کی شکار خواتین اکثر پولیس کی مداخلت کا متبادل نہیں چنیں گی، اور یہاں تک کہ اگر وہ گھر چھوڑ دیتی ہیں تب بھی ان کے شوہر کے پاس لوٹ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ یہ تب تک چلتا ہے جب تک وہ بالآخر بے عزت کرنے والے ساتھی سے پوری طرح الگ ہونے کا متبادل نہیں چنتیں۔

ایک عام شہری کی شکل میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ گھریلو تشدد کے شکار کو صرف فیمنسٹ کے بھروسے نہ چھوڑیں بلکہ ان کی تکلیف کو سمجھیں اور ان کی خواہش کے مطابق مدد کریں۔ انھیں طے کرنے دیں کہ انھیں کب، کتنی اور کیسی مدد کی ضرورت ہے۔ ان کے فیصلے کا احترام کر کے آپ ان کا بھروسہ جیت سکیں گے/سکیں گی اور تبھی مصیبت میں ہونے پر وہ آپ سے مدد مانگیں گی۔ اسی طرح ان کی جان بچانے میں آپ کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔

(ج) الگ ذات، الگ مذہب، یکساں جنس، لیو-اِن، یکساں گوتر اور سبھی طرح کی محبت کی شادیوں کی حمایت کرنی ہوگی۔

(د) ہمیں ایسی میڈیا/سوشل میڈیا مہموں سے الگ ہو جانے کی ضرورت ہے جو کسی ایک معاملے کو الگ تھلگ دیکھتے ہوئے اسے کسی ایک شخص کے ذریعہ کیا گیا ’غیر انسانی‘ عمل بتاتا ہو۔ اس کی جگہ ہمیں جنس پر مبنی گھریلو تشدد کے وسیع پیٹرن کو دیکھنا چاہیے۔


لو جہاد کے فرقہ وارانہ دلدل سے لڑیں:

جب ہندوتوادی گروپ کسی مسلم کے ذریعہ ایک ہندو خاتون کے خلاف تشدد کا معاملہ اٹھاتے ہیں اور اسے ’لو جہاد‘ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، یعنی مسلم مرد پیار کے نام پر ہندو خواتین کو ’پھانستے‘ ہیں تو وہ جنس پر مبنی تشدد کے خلاف چل رہی نسوانی جدوجہد کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔

سب سے پہلے اسے ایک پیٹرن کے طو رپر دیکھنا پوری طرح سے غلط ہے۔ اگر ایسے اعداد و شمار ہوں جو یہ دکھائیں کہ ہندو خواتین کے ساتھ مسلم مرد کے ہاتھوں غلط سلوک/قتل کے معاملے تناسبی طور پر کافی زیادہ ہے، تبھی ان حادثات کو ایک پیٹرن کی طرح دیکھا جا سکتا ہے اور اس حالت میں بھی ’لو جہاد‘ کی بات ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن ایسے واقعات تناسبی طور پر بہت ہی کم ہیں۔

بیشتر ہندوؤں کے دماغ میں یہ بات بھر کر کہ مسلم مردوں کے ہاتھوں صرف ہندو عورتوں کو ہی جنسی/گھریلو تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے، یہ مبینہ ہندوتوادی طاقتیں گھریلو تشدد/جنسی تشدد کی شکار ہندو خواتین کے مقابلے کہیں بڑی آبادی کا نقصان کر رہی ہیں۔ مسئلہ کو ’ہندو خواتین کے خلاف مسلم تشدد‘ کے چشمے سے دکھانے کی غلط تشہیر ان حقیقی مسائل کا اعتراف کرنے اور انھیں سلجھانے کی کوشش سے لوگوں کو روکتا ہے جن کی طرف شردھا قتل معاملہ اشارہ کر رہا ہے۔

(کویتا کرشنن سماجی کارکن ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔