شیر میسور: ایک علم دوست محقق...یوم پیدائش کے موقع پر

ٹیپو سلطان کو کتب بینی کا بے حد شوق تھا، خصوصاً تاریخ، فلسفہ اور تفسیر و احادیث وغیرہ کی کتابیں اس کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ رات میں بستر پر لیٹتے وقت کسی کتاب کا مطالعہ کرنا اس کے معمول کا حصہ تھا

ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان
user

شاہد صدیقی علیگ

جب ہم شیر میسور ٹیپو سلطان فتح علی خان کی حیات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس کی جرات، شجاعت، عزم و استقلال، ذہانت، فراست، مستقبل شناسی اور جنگی حکمت عملی کے علاوہ شعر و سخن سے دلچسپی اور علمی ذوق بھی سامنے آتا ہے۔

شیر میسور کو بچپن سے ہی اوراق گردانی کا بے حد شغف تھا۔ ٹیپو کے تحقیقی تجسس اور تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھ کر سلطان حیدر علی خان نے اسے بڑی شفقت سے سمجھایا تھا کہ سلطنت کے لیے قلم سے زیادہ تلوار کی ضرورت ہے۔

اگرچہ سلطان حیدر علی ناخواندہ تھا مگر اس نے اپنے لخت جگر کو فنون سپہ گری اور شہ سواری سکھانے کے علاوہ اس کی تعلیم کے لیے بھی بہترین اور اعلیٰ معلم مقرر کیے جنہوں نے ٹیپو کو قرآن مجید، فقہ، عربی، فارسی، اردو اور کنڑ وغیرہ زبانوں سے بہرہ مند کیا۔ یہی وجہ تھی کہ سن شعور سنبھالنے کے بعد وہ کسی بھی علمی موضوع یا فن پر کسی پس و پیش کے بغیر اپنی رائے کا برملا اظہار کر سکتا تھا۔ اسے احادیث، تصوف، سائنس، انجینئرنگ، ریاضی، ہندوازم، تاریخ، علم نجوم اور موسیقی سے بھی کافی حد تک شناسائی تھی، جبکہ خطاطی میں تو ٹیپو کو دسترس حاصل تھی۔

ٹیپو سلطان کی زندگی کا بیشتر حصّہ میدان جنگ اور گھوڑوں کی زین پر گزرا، اس کے باوجود اس کے علمی انہماک میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اہل علم اور شعراء اس کے دربار کی زینت بنتے تھے، جن سے وہ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتا تھا، جس کا اعتراف برطانوی مورخین اور کمانڈروں نے بھی کیا۔

ولیم کرک پیٹرک کو تسخیر سری رنگا پٹنم کے بعد شیر میسور ٹیپو سلطان کے دستاویزات کا معائنہ اور ترجمہ کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی، جس نے ان کے خطوط اور رقعات کو جمع کر کے "سلیکٹ لیٹرز آف ٹیپو" کتاب مرتب کی۔ اس کے دیباچے میں لکھا ہے:

"سلطان کی تحریر دوسروں کی تحریر سے بالکل متمیز تھی، اس قدر مختصر اور پرمعنی ہوتی تھی کہ ایک ایک لفظ سے کئی کئی معنی نکلتے تھے۔ اس کی تحریر کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ ایک ہی نظر میں پہچانی جاتی تھی کہ یہ سلطان کے قلم سے نکلی ہے۔ الفاظ میں تحکم پایا جاتا تھا۔"


سلطان اپنے ہر فرمان اور دیگر تحریروں پر جو ان کے معتمد لکھتے تھے، ان پر اپنے قلم سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر اپنی مہر ثبت کر دیتا تھا تاکہ اس میں کوئی کسی لفظ کا اضافہ نہ کر سکے۔

میجر اسٹورٹ کے مطابق ٹیپو نے مختلف موضوعات پر 45 سے زائد کتابیں یا تو خود لکھیں یا اس کی سرپرستی میں کسی معتمد نے لکھیں یا مرتب کیں یا دوسری زبانوں سے ترجمہ کی گئیں۔ جن میں فتح المجاہدین، مویدا، وقائع منازل روم، فقہ محمدی، فتح نامہ ٹیپو سلطان، خلاصہ سلطانی، حکم نامہ اتالیق، حکم نامہ جاسوسوں، مفردات در علم طب، جواہر القرآن، برقی و طبی تجربات، وعظ المجاہدین اور احکام نامہ وغیرہ شامل ہیں، جو ٹیپو سلطان کی خصوصی نگرانی میں قلم بند کی گئیں۔ ان کتابوں میں اکثر مضامین اور اشعار ٹیپو کے قلم سے نکلے ہیں۔

ٹیپو سلطان کو کتب بینی کا بے حد شوق تھا، خصوصاً تاریخ، فلسفہ اور تفسیر و احادیث وغیرہ کی کتابیں اس کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ رات میں بستر پر لیٹتے وقت کسی کتاب کا مطالعہ کرنا اس کے معمول کا حصہ تھا۔ اس کے محل کی ذاتی لائبریری میں دوہزار عربی، فارسی، ترکی، اردو اور ہندی کے پیش قیمت مخطوطات کے علاوہ مختلف فنون جیسے حدیث، فقہ، تصوف، ہندوازم، تاریخ، فلسفہ، طب، صرف و نحو، علم نجوم، موسیقی، حربیات، شاعری اور ریاضی کے علاوہ 1889 نادر کتابیں تھیں۔ ان میں اورنگ زیب عالمگیر کا ایک انمول قرآن مجید کا نسخہ بھی موجود تھا۔ ان تصانیف کی جلد سازی سرنگاپٹم میں ہی ہوئی تھی، ان کے پٹھوں کے وسط میں خدا، محمد، فاطمہ اور حسن و حسین کے نام اور چاروں کونوں پر خلفائے راشدین کے نام تمغے کی طرح درج ہوتے تھے۔ پیشانی پر سرکار خداداد اور پائنن میں اللہ کافی لکھا ہوتا تھا۔ جس کتاب کا مطالعہ کرتا، اس پر اپنی مہر و دستخط ضرور کرتا۔ کتب خانہ کی بیشتر کتابوں پر اس کے دستخط موجود ہیں۔

اس کی علم نوازی کا ہی ثبوت ہے کہ اس نے سری رنگا پٹنم میں ’جامع الامور‘ کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کرائی تھی، جس میں دینی اور جدید علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں سلطنت کے قاضیوں اور مساجد کے ائمہ کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ ہر مسجد میں ایک مکتبہ بھی ضرور قائم کریں، جہاں بچوں کی تعلیم کا معقول انتظام ہو اور انہیں تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔


پروفیسر آر سی مجمدار ’این ایڈوانسڈ ہسٹری آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں، ’’ایک صالح اخلاقی کردار شخص، اپنے طبقے کی مروجہ برائیوں سے پاک، جو خدا پر گہرا یقین رکھنے والا تھا، وہ بہت ہی تعلیم یافتہ تھا، فارسی، کنڑ اور اردو روانی سے بولتا تھا اور ایک بہت قیمتی لائبریری رکھتا تھا۔ جو ایک دلیر سپاہی، ہوشیار کمانڈر ہونے کے علاوہ ایک اعلیٰ درجہ کا سیاست دان بھی تھا۔‘‘

ٹیپو سلطان کو جنگ و جدل کے علاوہ جتنا بھی وقت ملا، اس نے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود پر صرف کیا۔ اس کی سیادت میں قائم مختلف محکمہ جات کی تعداد 99 تھی۔ حکومتی انتظام میں رعایا کو شامل کرنے کی مہم کا آغاز کیا، جس کی تکمیل کے لیے ایک مجلس ’زمرہ غم نباشد‘ قائم کی گئی، جس کے پیش نظر شخصی اقتدار کے بجائے مشاورتی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔