بجٹ میں اقلیت دشمنی کا بے شرم مظاہرہ... سہیل انجم
مرکزی بجٹ میں سب سے زیادہ دھچکہ اقلیتوں کے لیے جاری پری میٹرک اسکالرشپ کو لگا ہے۔ اس سے قبل اس کا بجٹ 1,425 کروڑ روپے تھا جو اب محض 433 کروڑ رپے رہ گیا۔
موجودہ حکومت بار بار یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ غریبوں کی حکومت ہے۔ اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومت ہے۔ دبے کچلے اور محروم طبقات کی فلاح و بہبود کی فکر کرنے والی حکومت ہے۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے اور سب کا وکاس یعنی ترقی میں یقین رکھتی ہے۔ اس نے سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کے نعرے میں ایک لفظ وشواس کو جوڑا اور پھر پریاس یعنی کوشش کو بھی جوڑا۔ لیکن اگر ہم اگلے سال یعنی 2023-24 کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ کو دیکھیں تو حکومت کے دعوے کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت نہ تو اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود میں یقین رکھتی ہے اور نہ ہی غریبوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے سے اسے کوئی دلچسپی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ نہ تو اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں 38 فیصد کی تخفیف کرتی اور نہ ہی اقلیتوں کے تعلیمی فروغ کی اسکیمیں بند یا ان کے بجٹ میں کٹوتی کرتی۔
بجٹ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ حکومت نے گزشتہ سال اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ 5,020.50 کروڑ روپے رکھا تھا جسے کم کرکے3,097 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اقلیتوں کے تعلیمی فروغ کے لیے گزشتہ سال کا بجٹ 2,515 کروڑ روپے تھا جو اب کم کرکے 1,689 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ اور روزی روٹی کے لیے مختص نئی منزل اسکیم اور اقلیتی خواتین کے لیے اسکیم تقریباً غائب ہو چکی ہیں۔ پہلے اس کا بجٹ 332.91 کروڑ روپے تھا جو اب صرف 3.4 کروڑ روپے رہ گیا ہے۔
اسی طرح اقلیتی طبقات کے طلبا کے لیے پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز کے لیے میرٹ پر مبنی اسکالرشپ اور دیگر اسکالرشپ اور ہنر مندی کے پروگراموں کے بجٹ میں نمایاں کمی کر دی گئی ہے۔ حکومت نے ان پروگراموں کے بجٹ کو 365 کروڑ روپے سے گھٹا کر 44 کروڑ روپے کر دیا ہے۔ اقلیتوں کے لیے مفت کوچنگ اور اس سے منسلک اسکیموں کے بجٹ کو بھی تقریباً 60 فیصد کم کرکے 79 کروڑ روپے سے 30 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے UPSC ،SSC اور ریاستی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ منعقدہ ابتدائی امتحانات پاس کرنے میں طلبا کی مدد کرنے کے پروگراموں کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی ہے۔ حالانکہ گزشتہ بجٹ میں آٹھ کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔
اقلیتوں کے لیے تحقیقی اسکیموں کے لیے مختص رقم کو 41 کروڑ روپے سے گھٹا کر 20 کروڑ کر دیا گیا ہے۔ اقلیتوں کے لیے خصوصی اسکیموں میں 50 فیصد کٹوتی بھی کی ہے جس میں تحقیق، مطالعہ، تشہیر، نگرانی اور ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ، اقلیتوں کے ورثے کا تحفظ اور آبادی میں کمی پر قابو پانے کی اسکیمیں شامل ہیں۔ مرکزی بجٹ میں سب سے زیادہ دھچکہ اقلیتوں کے لیے جاری پری میٹرک اسکالرشپ کو لگا ہے۔ اس سے قبل اس کا بجٹ 1,425 کروڑ روپے تھا جو اب محض 433 کروڑ رپے رہ گیا۔ یعنی اس میں 87 فیصد کی تخفیف کی گئی ہے۔ بجٹ میں مدرسہ مائنارٹی ایجوکیشن کے لیے گزشتہ سال 160 کروڑ روپے رکھے گئے تھے جو کہ اب محض 10 کروڑ رہ گئے ہیں۔
اقلیتی اسٹوڈنٹس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برسوں سے جاری مولانا آزاد فیلوشپ کو حکومت نے پہلے ہی ختم کر دیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت اقلیتی بالخصوص مسلم طلبہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ حکومت نے تعلیمی اعتبار سے پسماندہ اقلیتوں کے لیے 34 برس سے جاری مولانا آزاد فاونڈیشن کا بجٹ گزشتہ سال فروری میں 100,000 کروڑ روپے سے کم کرکے محض 90 کروڑ روپے کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ درجہ ایک سے آٹھویں تک کے اقلیتی طلبہ کے لیے 21 برس سے جاری بیگم حضرت محل پری میٹرک اسکالر شپ ختم کر دی۔ رواں سال کے جنوری میں اقلیتی طبقات کے غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیئے جانے والے قرض کی اسکیم پڑھو پردیس کو بھی ختم کر دیا۔
اقلیتی طبقات اور بالخصوص مسلمانوں کی جانب سے مولانا آزاد فاونڈیشن کے بجٹ اور مولانا آزاد فیلوشپ کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن حکومت نے اس کو بحال کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی نے اس سلسلے میں ایک لولی لنگڑی دلیل دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اقلیتوں کے لیے پہلے سے ہی متعدد اسکیمیں چل رہی ہیں اور مذکورہ اسکیم ان سے ٹکراتی ہے لہٰذا اسے بند کر دیا گیا اور اب اسے دوبارہ جاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسکل ڈیولپمنٹ اینڈ پرینیورشپ، نوجوانوں کے امور، تہذیب و ثقافت، بہبودی خواتین و اطفال اور دیہی ترقیات کی وزارتوں کی جانب سے متعدد اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں جن سے اقلیتی اسٹوڈنٹس بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے الگ سے اسکیمیں چلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسکیمیں پہلے نہیں چل رہی تھیں یا پہلے کی حکومتوں کو ان اسکیموں کا کوئی علم نہیں تھا۔ سچر کمیٹی نے ہندوستان میں مسلم اقلیت کی پسماندگی کو دلتوں سے بھی زیادہ بتایا ہے۔ اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اور اس سے پہلے بھی اقلیتوں کے تعلیمی و اقتصادی فروغ کے لیے مذکورہ اسکیمیں چلائی گئی تھیں۔ اگر وہ مختلف وزارتوں سے چلائی جانے والی اسکیموں سے فائدہ اٹھا پاتیں تو پھر ان نئی اسکیموں کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کیا حکومت کو نہیں معلوم کہ مسلم اقلیت تعلیمی اعتبار سے بھی پسماندہ ہے اور اقتصادی اعتبار سے بھی۔ ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے ہی ان پروگراموں کا اعلان کیا گیا تھا۔
مبصرین کہتے ہیں کہ ایک طرف حکومت پسماندہ مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری جانب ان کی فلاح و بہبود سے متعلق اسکیموں اور پروگراموں کو ختم کر رہی ہے۔ کیا یہ حکومت کا دوہرا رویہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ مولانا آزاد فیلوشپ سے جو کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے دی جاتی ہے، جموں و کشمیر کے لاتعداد طلبہ بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔ لیکن اب ان کا تعلیمی سلسلہ بھی رک جائے گا۔ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ وہ کشمیری نوجوانوں کو مین اسٹریم میں لانا چاہتی ہے اور دوسری طرف ان کی تعلیم کو ان سے چھین رہی ہے۔ مبصرین اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ اس سے کشمیری نوجوانوں کے بہکنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق اسکیموں کو بند کرنے یا ان کے بجٹ میں کمی کرنے کا فیصلہ آنے والے پارلیمانی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا ہے۔ کیونکہ جب انتخابی ریلیوں میں یہ تاثر دیا جائے گا کہ مسلمانوں سے ان کی تعلیم چھین لی گئی ہے اور وہ اب بہت پریشان ہیں تو ظاہر ہے کہ اس طبقے کا ووٹ جو کہ مسلمانوں سے دشمنی کے جذبات رکھتا ہے، بی جے پی کو ہی ملیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کی اسکیموں اور پروگراموں کے بجٹ میں تخفیف کے خلاف زبردست آواز بلند کی جائے۔ ورنہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی پسماندگی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔