چوری چورہ کیس کے محرک شہید عبداللہ، جنہیں تاریخ ہند میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے
ہندوستان کی تحریک آزادی میں 1922 کو رونما ہوا سانحہ چوری چورہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن چوری چورہ کے محرک شہید عبداللہ ساکن گورکھپور کو تاریخ ہند میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ کم از کم حقدار تھے
امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی کہانی مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے لکھی ہے۔ جنہوں نے تحریک آزادی کی ہر مہم میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ دوسروں فرقوں سے زیادہ قربانیاں پیش کیں لیکن مسلمان مجاہدین کی قربانیوں کو دانستہ یا غیر دانستہ چھپا دیا گیا یا عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ لہٰذا جب ہمارا ملک امرت مہا اتسو منا رہا ہے اس خوشی کے مبارک موقع پر ہر اہل وطن کو ان ناقابل تردید حقائق سے واقف ہونا چاہیے۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں 5 فروری 1922 کو رونما ہوا سانحہ چوری چورہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن چوری چورہ کے محرک شہید عبداللہ ساکن گورکھپور کو تاریخ ہند میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ کم از کم حق دار تھے۔
مجاہد آزادی عبداللہ نے تلاش معاش کی خاطر احمد آباد میں بودوباش اختیار کر رکھی تھی لیکن وطن کی محبت و الفت سے سرپار تھے، چنانچہ جب احمد آباد میں کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا تو انہوں نے رضاکار کی حیثیت سے شرکت کی۔ ان کے جذبہ کو دیکھ کر منتظمین نے انہیں مسلم مندوبین کے کھانے پینے کا نگراں بنا دیا۔ جس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور جنگ آزادی میں فعال کردار نبھانے کا مصمم عزم کر لیا۔
عبداللہ احمد آباد کو خیر باد کہہ کر وطن لوٹ آئے اور معاشرہ کے پسماندہ طبقوں، کاشتکاروں اور مزدورں کو کانگریسی پرچم کے تلے جمع کر کے عملی جدوجہدکرنے کا فیصلہ کیا۔ عبداللہ کی کاوشوں سے گورکھپور شہر سے ہی جنوری 1922 میں 15000 رضاکاروں کا انداراج ہوا۔ لعل محمد، نذر علی اور بھگوان یادو (ریٹائٹرڈ فوجی) بھی ا نکے معاون بن گئے۔ جنہوں نے زور وشور سے رضاکاروں کی بھرتی شروع کر دی اور سودیشی مہم کے تحت باقاعدہ بیرونی سامان خصوصاً شراب خانوں کی پکٹنگ کے خلاف پرامن مہم چھیڑ دی۔جس کی شکایت شراب مافیہ اورٹھیکہ داروں نے برٹش افسران سے کی تو چوری چورہ تھانہ کے انسپکٹر گپتیشور سنگھ نے بعض کارکنوں کو پکڑ کر شدید زدوکوب کیا۔ ساتھ ہی علاقہ بدر کا حکم صادر کر دیا۔
پولیس کی بربریت کی داستان لعل محمد نے گورکھپور کے کانگریسی صدر سبحان اللہ کو تحریری شکل میں پیش کی اور طے ہوا کہ 4 فروری کو اس واقعہ کے خلاف تھانہ پہ پرامن مظاہرہ کیا جائے۔ 4 فروری 1922 کو عبداللہ کی رہنمائی میں ڈومری و گرد نواح کے دیہاتوں کے تقربیاً 2000 سے زائد نوجوان اور رضاکار چوری چورہ تھانہ پہنچے۔ حالات کے مدنظر تھانہ دار نے کر مظاہرین سے معافی مانگ لی جس کے بعد مظاہرین منتشر ہو کر اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے لیکن تب ہی سپاہیوں نے بعض کارکنوں کو ماربنا پیٹنا شروع کر دیا۔ جسے دیکھ کر بعض نوجوان چراغ پا ہو گئے اور انہوں نے ریلوے لائن کے کنارے سے پتھر اٹھا کر پھنکنے شروع کر دیے، جس کے ردعمل میں پولیس نے فائرنگ شروع کر دی۔ مولوی نذر علی، رام کھلاون اوربھگوان یادو سمیت 26 مظاہرین گولی لگنے سے وہیں جاں بحق ہو گئے اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔
خون سے لت پت زخمیوں اور نعشوں کو دیکھ کر بھیڑ آپے سے باہر ہو گئی پولیس کی گولیاں ختم ہو گئیں تو سپاہی تھانہ میں دوڑ کر چھپ گئے۔ دروازے اندر سے بند کر لیے تو بھیڑ پویس کو سبق سکھانے کے لیے تھانہ کے اندر داخل ہو گئی۔ جنہوں نے تھانہ کو آگ کے حوالے کر دیا۔ جس میں 23 پولیس اہل کار جل کر مر گئے۔ مظاہرین نے ٹیلی گرام کی لائنوں اور ریلوے پڑیوں کو اکھاڑ پھینکا۔ چوری چورہ واقعہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جسے سنتے ہی مہاتما گاندھی نے 12 فروری 1922 کو سول نافرمانی تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
گورکھپور کی پولیس نے بڑے پیمانے پر داروگیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ 2 جون 1922 کو سیشن جج ایچ ای ہومس نے 225 لوگوں کے مقدمہ کی سماعت شروع کی۔ جس نے 9 جنوری 1923 کو 172 لوگوں کو سزائے موت، 2 کو دو سال کی قید کی سزا دی گئی، جبکہ 47 کو شک کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا۔ مؤرخہ 20 اپریل 1923 ضلع کانگریس کمیٹی گورکھپور نے اپیل دائر کی۔ چیف جسٹس سر گریم وڈ پیرس اور جج پیگٹ نے سنوائی شروع کی، جس کا فیصلہ 30 اپریل 1923 کو آیا جس کے تحت 19 افراد بشمول عبداللہ کی سزائے موت برقرار رہی۔ تحریک کے روح رواں عبداللہ کو بارہ بنکی جیل میں 2 جولائی 1922 کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا لیکن افسوس عبداللہ کی قربانی محدّب آئینہ سے دیکھنے کے بعد بھی تاریخ ہند کے صفحات پر نظر نہیں آتی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔