کورونا بحران کے بعد خوفناک ہوگی تصویر، بڑی آبادی کو بھکمری سے بچانا پہلی ضرورت
معروف ماہر اقتصادیات پروفیسر ارون کمار کا واضح لفظوں میں کہنا ہے کہ اس وقت جان بچانے کے لیے پیکیج کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کی بڑی غریب آبادی اپنی قوت پر ضروری سامان گھروں میں جمع نہیں کر سکتی۔
ہم لوگ اب تک اتنا تو سمجھ ہی گئے ہویں کہ کورونا وائرس صرف ہیلتھ ایمرجنسی کے لیے چیلنج پیش نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ معاشی و اقتصادی خطرہ بھی ہے اور یہ جنگ جیسی حالت میں در پیش چیلنج سے کہیں سنگین معاملہ ہے۔ جنگ کے دوران طلب اچانک سے نہیں گر جاتی۔ کووڈ-19 کے حملے میں صرف طلب ہی نہیں، ملک بھر میں سپلائی کا پورا سسٹم ہی منہدم ہو گیا ہے۔ پروڈکشن دھیرے دھیرے بالکل ہی ختم ہو گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ کم از کم 14 کروڑ ہندوستانی اگلے مہینوں میں بے روزگار ہو جائیں گے۔ کورونا وبا نے ہندوستان پر جب حملہ کیا، اس سے پہلے سے ہی معیشت بحران میں تھی، جس سے اپنے یہاں بے روزگاری شرح گزشتہ 45 سال کے عروج پر تھی۔
معروف ماہر اقتصادیات پروفیسر ارون کمار کو لگتا ہے کہ یہ سرکاری پیکیج کا وقت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں "ہمارے لیے ضروری ہے جان بچانے کے لیے پیکیج کی۔ یہ جان بچانے کے لیے ہی جنگ ہے۔ یہ ہم لوگوں کی یاد میں مشکل وقت ہے۔ اس ملک کی بڑی غریب آبادی کے پاس نام محض کی بچت ہے۔ وہ ضروری سامان گھر میں جمع بھی نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت اس حقیقت کو نہیں سمجھے گی تو پورے ملک میں کھانے پینے کے لیے فساد برپا ہو جائے گا۔"
پروفیسر کمار کو لگتا ہے کہ بینکوں کے ذریعہ نقدی دینے کی جگہ صرف عوامی نظام تقسیم (پی ڈی ایس) کا دائرہ بڑھا کر ہی حالات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں "آپ دیکھو، لاک ڈاؤن کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروری سامان کو لانے لے جانے کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ایسی حالت میں پیسہ مدد نہیں کرتا۔ براہ راست مداخلت واحد طریقہ ہے۔"
ارون کمار کہتے ہیں کہ وائرس کے سماجی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لوگوں کو ضروری سامان ان کے دروازے تک پہنچانے کا انتظام کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں "اگر لوگ گھر سے نکل کر وہاں جمع ہو جاتے ہیں جہاں سامان تقسیم کرنے یا فروخت کرنے کا انتظام ہے تو لاک ڈاؤن کا پورا مقصد ہی بے کار ہو جائے گا۔ ہر ریاستی حکومت کے پاس بڑی تعداد میں ایسی بسیں ہیں جو بے کار کھڑی ہیں اور کافی سارے ایسے محکمے ہیں جن کا اس وقت کوئی کام نہیں ہے۔ ان بسوں اور ملازمین کو نشان زد علاقوں میں جانے کے لیے سرگرم کیا جا سکتا ہے اور لوگوں میں ضروری سامان تقسیم کرایا جا سکتا ہے۔ سامان لینے کے لیے شناخت کا ثبوت دکھانے کے لزوم کو فی الحال ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہر ضرورت مند تک سامان پہنچانا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔"
پروفیسر کمار کا کہنا ہے کہ بھکمری سے بڑی آبادی کو بچانے کے لیے بڑے عزائم کی ضرورت ہے اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس سے بھی بڑا مسئلہ صحت سے متعلق ہے۔ پروفیسر کمار یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ جب تک صحت کے محاذ پر لڑائی نہیں جیت لی جاتی، معاشی دشواریاں دور نہیں ہوں گی۔ حکومت کے سامنے اگلا سب سے اہم چیلنج بڑے پیمانے پر صنعتوں و کاروباروں کو ٹھپ ہونے سے بچانا ہے۔ ملک کا زیادہ تر پروڈکشن اور ملک کا لیبر فورس (مزدور طاقت) کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ غیر منظم سیکٹر میں ہے، جہاں کا پورا کام بازار میں لگے پیسے یا بینک قرضوں پر منحصر ہوتا ہے۔
موجودہ ماحول میں حکومت کو یقینی کرنا ہوگا کہ اسمال اور مڈل صنعتوں (ایس ایم ای) میں کام کرنے والے لوگوں کے موجودہ قرضوں کو روکا نہیں جائے بلکہ انھیں رعایتی شرح پر قرض دستیاب ہو سکے۔ اس معاملے میں پروفیسر کمار کیرالہ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں "حکومت اس طرح کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ذمہ خود اٹھا سکتی ہے۔ ہندوستانی لیبر فورس کے 10 سے 9 کو روزگار دینے والی صنعتیں اگر ختم ہو جاتی ہیں تو یہ ایک خوفناک حالت ہوگی۔" پروفیسر کمار کا ماننا ہے کہ اس سے پہلے کہ حالات بہت مشکل ہو جائیں، پہلے سے ہی پریشانی کے شکار مالیاتی سیکٹر کی صحت پر دھیان دینا ہوگا۔ حکومت کو اس کا خیال رکھنا ہوگا۔
اناج سے لے کر سبزیوں تک فروخت کرنے میں کسانوں کو جس طرح پریشانی ہو رہی ہے، اس میں پی ڈی ایس نظام کے دائرہ کو بڑھانا مناسب ہوگا۔ خبریں ہیں کہ چارہ وغیرہ کی کمی اور ٹرانسپورٹ سہولت تہس نہس ہو جانے کی وجہ سے دودھ کا پروڈکشن 50 فیصد تک گر گیا ہے۔ ایسے میں حکومت کو ملک پاؤڈر کا بڑے پیمانے پر پروڈکشن اور پھر لوگوں میں اس کی تقسیم کا انتظام کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ یہ ملک کے غریبوں کے درمیان عدم غذائیت کے مسئلہ سے نمٹنے میں قابل قدر قدم ہو سکتا ہے۔
پروفیسر کمار اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "لیکن ان سب کے لیے مرکز اور ریاستوں کے درمیان سیاسی اور انتظامی دونوں قسم کے تال میل کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی دہلی میں نئے پارلیمنٹ ہاؤس وغیرہ کی تعمیر کے منصوبہ- سنٹرل وِسٹا پلان، جیسے غیر ضروری منصوبوں اور دیگر اخراجات کو فی الحال ملتوی کیا جا سکتا ہے اور ان وسائل کو صحت و وسیع پی ڈی ایس منصوبوں میں لگایا جا سکتا ہے۔
اس وقت غیر منظم سیکٹر میں لگے لوگوں کی کھل کر مدد پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ جے این یو میں سنٹر فار اکونومک اسٹڈیز اینڈ پلاننگ کے اسسٹنٹ پروفیسر سرجیت داس بھی ہندوستان کے بیشتر لیبر فورس کو سماجی سیکورٹی چکر سے باہر رکھے جانے سے فکرمند ہیں۔ وہ کہتے ہیں "پیریوڈک لیبر فورس سروے بتاتا ہے کہ ہماری اوسط مزدوری تقریباً 10 ہزار روپے فی ماہ ہے۔ یہ ہمارے دیہی، شہری، مرد، خاتون، مستقل، غیر روایتی اور خودروزگار والے لیبر فورس کی آمدنی کا موٹا اوسط ہے۔ چونکہ آبادی کے 10 فیصد کی اس سے کہیں زیادہ آمدنی ہے، اس لیے کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بقیہ 90 فیصد کتنا کماتا ہے۔ جب تک ان لوگوں کو کام کی کمی کے لیے ازالہ نہیں کیا جاتا ہے، وہ طویل مدت تک جینے میں اہل نہیں ہو پائیں گے۔
سرجیت داس کو لگتا ہے کہ حکومت کے پاس 13.65 کروڑ منریگا جاب کارڈ اور جن دھن منصوبہ کے اعداد و شمار ہیں، اس سے دہراؤ کے امکان کو ختم کرتے ہوئے لوگوں تک سیدھے نقد پہنچایا جا سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے اب تک 1.7 لاکھ کروڑ کا بیل آؤٹ پیکیج دیا ہے، جب کہ اسے بڑھا کر 3.5 لاکھ کروڑ روپے یا جی ڈی پی کا تقریباً 1.75 فیصد کر دینا چاہیے۔ حکومت یہ رقم آر بی آئی سے بطور قرض لے سکتی ہے، کیونکہ طلب میں گراوٹ کے وقت مونیٹائزیشن مہنگائی نہیں ہے۔ پہچان کے کسی طور طریقے کی بنیاد پر 12-10 کروڑ مہاجروں تک بھی رسائی بنانے کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔