رسول عربیؐ کے پیغام میں ہی نجات ہے... ظفر آغا
آج اللہ اور عام مسلمان کے بیچ علماء کی شکل میں بچولیا ویسے ہی بیٹھ گیا ہے جیسے مندروں میں برہمن پنڈت بیٹھا ہے۔ اب وہ بچولیا سیاسی معاملات میں فتوے دے کر مسلمانوں کی زندگی اور آزادی پر تالے لگا رہا ہے۔
بھلا عید میلاد کی تاریخ سے بڑھ کر کوئی دن و تاریخ ہو سکتی ہے۔ یہ وہ مبارک روز ہے جس روز خاتم المرسلین نبی کریم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور ان کی ولادت کے تقریباً چالیس برس بعد اسلام کی داغ بیل پڑی۔ ظاہر ہے کہ اس مبارک دن جس قدر خوشیاں منائی جائیں کم ہیں۔ کیونکہ اس روز ایک عظیم المرتبت شخصیت کی ہی ولادت نہیں ہوئی بلکہ دنیا کے لیے ایک نئے پیغام و ایک نئے نظام حیات کی بھی آمد کے راستے کھل گئے۔ اس نظام حیات کے پیغمبر خود محمد مصطفےٰ تھے جس کی ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے ریگزاروں میں داغ بیل پڑی اور جس کا نام اسلام ہوا۔ محض 100 سال سے کم مدت میں رسول کریم کے پیغام اسلام نے ساری دنیا میں دھوم مچا دی۔ دیکھتے دیکھتے اسلام نہ صرف عالم عرب بلکہ پورے ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے تک پھیل گیا۔ اس نظام حیات کے ماننے والے جلد ہی دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی بن گئے۔
رسول کریم نے اسلام کے نام سے جو پیغام دیا اس پر منحصر مسلم تہذیب ساتویں صدی عیسوی سے لے کر تقریباً انیسویں صدی کے خاتمے تک دنیا پر چھا گئی۔ اگر میڈیویل دور پر ایک نگاہ ڈالیے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ رسول عربی کے پیغام پر مبنی مسلم پاور اس پورے دور کی سپر پاور بن گئیں۔ اموی عباسی، ترکی اور مغلیہ خلافتیں اور سلطنتیں میڈیویل دور کی محض سپر پاور ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ، سب سے زیادہ طاقتور اور شاندار خلافتیں اور سلطنتیں تھیں۔ آخر کیا سبب تھا کہ اسلام اور مسلم تہذیب کا ڈنکا دنیا میں بج رہا تھا! راقم الحروف کی حقیر رائے میں محمد عربی نے جس پیغام کی تشہیر کی اس کی چند باتیں ایسی تھیں کہ جس نے مسلمان کو سپر پاور بنا دیا۔ اول، اسلام کا پیام توحید وہ پیغام تھا جس نے ہر مسلمان کو ایک اللہ کے سامنے متحد کر ایک قوم بنا دیا۔ اسلام سے قبل بھی مسیحی اور یہودی مذاہب توحید سے بندھے تھے لیکن اسلام کے عروج کے وقت تک ان مذاہب پر چرچ اور ان کے پادریوں اور راہبوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ مسیحی پادری ایک مسیحی انسان اور اس کے خدا کے بیچ ایک کمیشن ایجنٹ بن چکا تھا۔ جو حال ہندوستان میں مندروں پر برہمن قبضے کا تھا وہی حال دنیا کے دوسرے تمام مذاہب کے ٹھیکیداروں کا تھا۔
لیکن اسلام میں جس نے کلمہ لا الٰہ الاللہل پڑھ لیا وہ نہ صرف مسلمان ہو گیا بلکہ اب اس کے اور اس کے اللہ کے درمیان رشتوں میں کسی بچولیے کا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ اس کے لیے اللہ کا گھر مسجد کھل گیا۔ وہ کسی بھی صف میں بغیر رنگ و نسل، بغیر اونچ نیچ اور بغیر صنفی تفریق کے نماز پڑھ سکتا ہے۔ رسول کی مسجد نبوی عربی، عجمی اور افریقی یا ہر قبیلہ والے کے لیے ویسی ہی کھلی تھی جیسے خود رسول کے قریشی قبیلہ کے لیے کھلی تھی۔ اس مسجد میں عورت و مرد سب ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے، کیونکہ سب اس اللہ کے بندے تھے، خواہ وہ کسی رنگ، کسی نسل، کسی خطہ اور کسی جنس سے تعلق رکھتے تھے۔ یعنی رسول کریم نے اسلام کے ذریعہ انسانیت کو نسلی، قبائلی، صنفی ہر قسم کے تعصب سے آزاد کر ایک ایسی خودمختاری کا عملی تصور دیا کہ جو اس سے قبل دنیا میں تھا ہی نہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ عالم تھا اسلامی معاشرے میں انسانی برابری کا خود ہندوستان میں ایک لمبے عرصے تک غلام سلطنت کا دور دورہ رہا۔ حد تو یہ ہے کہ اسی دور میں رضیہ سلطان جیسی ایک عورت نے ہندوستان پر حکومت کی جو آج کے ہندوستان کے مسلم معاشرے کو شاید برداشت نہیں ہے۔ رسول کریم کے اس اسلامی پیغام میں ایسی اور کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً انسانیت کو آزادی نسواں کا پیام دے کر مسلم معاشرے کو اس قدر خود مختار اور سماجی انصاف پر مبنی بنا دیا کہ دیکھتے دیکھتے مسلم تہذیب کو پر لگ گئے اور مسلمان دنیا کی سب سے ترقی یافتہ سپر پاور قوم بن گئی۔
لیکن افسوس کہ آج وہی مسلم تہذیب بدترین زوال کا شکار ہے۔ وہ مسلم قوم جو اور حکومتیں جو کبھی سپر پاور کہلاتی تھیں، ساری دنیا میں تقریباً غلامی کی زندگی جی رہی ہے۔ اس عید میلاد النبی پر فرانس میں دہشت گردانہ حملے کے سبب مسلمان پر ساری دنیا میں لعنت ملامت ہو رہی ہے۔ تلخ بات یہ ہے کہ آج رسول کریم کے ماننے والے دنیا کے سب سے زوال پذیر افراد ہیں۔ آخر یہ تباہی و بربادی کیوں! اس کا بنیادی سبب صرف یہ ہے کہ عالم اسلام رسول کے دیے پیغام سے منحرف ہو گیا۔ اور میں جب یہ کہہ رہا ہوں تو سلفی یا وہابی کی طرح میری مراد اس ملک کے نظریات کو ماننا نہیں ہے۔ میری حقیر رائے میں مسلمانوں کی تباہی و غلامی کا سبب یہ ہے کہ آج اسلام پر علماء کا ویسے ہی قبضہ ہو چکا ہے جیسے کبھی چرچ پر کرسچین پادری کا تھا۔ طرح طرح کے فتنوں میں گرفتار آج اللہ اور ایک عام مسلمان کے بیچ ویسے ہی ایک بچولیا بیٹھ گیا ہے جیسے مندروں میں برہمن پنڈت بیٹھا ہے۔ حد یہ ہے کہ اب وہ بچولیا سیاسی معاملات میں فتوے دے کر مسلمانوں کی زندگی اور آزادی پر تالے لگا رہا ہے۔
آج کا مسلمان اپنا اظہارِ آزادی کھو چکا ہے۔ ہر رائے پر ایک مولوی کے فتوے کا تالا پڑ چکا ہے۔ اللہ کے گھر اب مولویوں کے گھر ہیں۔ سارے عالم اسلام میں شیخ، سلطان اور فوجی حکومتوں کا قبضہ ہے۔ آج کا مسلم حاکم خود کو ظل الٰہی سے کم نہیں سمجھتا۔ مسلم معاشرے میں ایک بار پھر سے قبائلی، نسلی، علاقائی، لسانی، صنفی اور حد یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں ذات پات کی اونچ نیچ پیدا ہو چکی ہے۔ ملاؤں کے قائم کردہ مسلکوں میں بٹا مسلمان اپنی برابری اور آزادی کھو کر خانوں میں بٹ چکا ہے۔ وہ مسلم عورت جس کو رسول کریم نے خلاء کا حق دیا اور جس کو وہ خود اپنے ساتھ میدان جنگ تک لے کر گئے، وہی مسلم عورت آج مردوں کی عصبیت کا شکار گھروں کی چہار دیواری میں قید ہے۔
لب و لباب یہ کہ رسول عربی نے جس پیغام کے ذریعہ دنیا اور آخرت کی زبردست خود مختاری اور آزادی کا جو پیام دیا تھا، اس پر اس کے بچولیوں نے قبضہ کر لیا۔ آج اسلام ان بچولیوں سے ویسے ہی گھرا ہے جیسے ہندو دھرم برہمنوں کے ہاتھ میں قید، ذات پات اور انسانی غیر برابری کا شکار ہے۔ ظاہر ہے کہ جو معاشرہ اپنی فکر اور آزادی مذہب کے ٹھیکے داروں کو سونپ دے گا وہ معاشرہ آخر غلامی کا شکار تو ہو کر رہے گا۔ وہ مسلم قوم اور مسلم تہذیب جو کبھی رسول کریم کے پیام کے راستے پر چل کر سپر پاور کے عروج تک پہنچی، آج وہی قوم دنیا کی سب سے زوال پذیر قوم ہے۔ اس سے بڑھ کر رسول کریم کے دیے پیغام کا کوئی المیہ نہیں ہو سکتا۔ وقت ہے کہ اسلامی معاشرہ پھر اپنی وہی آزادی اور برابری دوبارہ قائم کرے جس کا پیغام صدیوں قبل محمد عربی نے دیا تھا۔
(یہ مضمون عید میلاد النبیؐ کے موقع پر شائع ہو چکا ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Oct 2020, 5:11 PM