پہلی جنگ آزادی کے گمنام مجاہد رئیس عبداللطیف خان اور ان کے خانوادے کی قربانیاں

نواب ولی داد خان کی قیادت میں انقلابیوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف بہادری سے لڑائی کی، مگر غداری کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، مگر ان کی قربانیوں کو تاریخ میں فراموش کر دیا گیا

<div class="paragraphs"><p>تصوری شاہد صدیقی علیگ</p></div>

تصوری شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

برن یعنی بلند شہر مغربی اترپردیش کا ایک اہم ضلع ہے، جو میرٹھ اور آگرہ شاہراہ پر واقع ہے۔ جہاں کے متوالے پہلی ملک گیر جنگ آزادی 1857ء میں انگریزوں کے لیے وبال جان بن گئے اور نواب ولی داد خان (مالا گڑھ) کی رہنمائی میں متعدد لڑائیاں لڑیں اور نو آبادیاتی نظام کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جن میں رئیس خان پور عبداللطیف خان، ان کے چچا اعظم خان اور بھتیجے حاجی منیر خان نے نمایاں کردار ادا کیا، جو تاریخ ہند میں آب زر سے لکھنے کے لائق ہے۔

11 مئی 1857ء کو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد نواب ولی داد خاں کو دوآبہ کا صوبہ دار متعین کیا تو قرب و جوار کے امیر، تعلقہ دار اور زمیندار بشمول عبداللطیف خاں (رئیس خان پور)، ان کے چچا اعظم خاں، حاجی منیر خاں (اعظم خان کا بیٹا) کی سرکردگی میں تاجران فرنگ کا بستر گول کرنے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ جن کی تقلید کرتے ہوئے بارہ بستی کے پٹھانوں نے بھی انقلابیوں کا تعاون کرنے کا فیصلہ کیا۔ نواب ولی داد خاں نے اپنے بھانجے اسماعیل خاں اور حاجی منیر خاں کو اپنی فوجوں کی کمان سونپی۔ جنہوں نے اپنی دلیرانہ اور شجاعت سے انگریزوں کے دانت کھٹے کر دیے اور انہیں بلند شہر سے بھاگ کر بابو گڑھ چھاونی (ہاپوڑ) میں گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ بلند شہر سے علی گڑھ تک کی عمل داری کمپنی بہادر سے نکل کر نواب ولی داد خاں کے ہاتھوں میں آگئی۔ جنہوں نے اپنے اعلیٰ طریقہ کار سے تمام شاہراہوں پر تسلط قائم کر لیا۔ فرنگیوں کو آگرہ سے قاصدو وکی معرفت بھی خط و کتابت ہونا دشوار ہو گیا۔ حتیٰ کہ ٹیلی گراف کے کھمبوں اور تاروں کو مکمل طور پر ہٹا کر کمپنی حکام کو تار سے بھی محروم کر دیا۔ لہٰذا کمپنی حکام نے ریشہ دوانیوں اور شاطرانہ چالیں چلنی شروع کر دیں۔ ضلع مجسٹریٹ برنڈ سپٹ نے بابو گڑھ چھاﺅنی میں ہی بیٹھ کر راجہ راﺅ گلاب سنگھ، بھٹونہ، سہرا، سید پور، کورلی کلی اور موضع بنیونی کے جاٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ علاوہ ازیں ضلع کے تمام بڑے زمینداروں سے انقلاب کو کچلنے کے لیے فوجی امداد کی گہار لگائی، لیکن 225 دیہاتوں کے جاگیر دار رئیس خان پور عبداللطیف خاں نے سپٹ سے اپنے نزدیک تعلقات کے باوجود اس کی درخواست سرد خانہ کی نذر کر دی اور انقلابیوں کا ہر ممکن تعاون کرنے کا عزم کیا۔ ان کے ساتھ اہل خانہ اور قبیلے نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اگرچہ عبداللطیف خاں نے براہ راست معرکہ آرائی میں شرکت نہیں کی مگر ضلع اور گرد و نواح کے جاں بازوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کے علاوہ انقلابی نول گوجر، رحیم الدین اور بارہ بستی کے پٹھانوں کو پناہ دی۔


نواب ولی داد خان کے فوجی دستوں نے محدود وسائل کے باوجود انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا۔ جولائی کے اواخر میں انہوں نے گلاوٹھی سے دہلی کی جانب پیش قدمی کرنے کا فیصلہ کیا مگر انگریزی جاسوسوں نے اپنے آقاؤں کو بروقت اطلاع پہنچا دی۔ خبر ملتے ہی انگریز حکام نے میرٹھ سے فوجی دستے روانہ کر دیئے۔ 29 جولائی کو ولی داد خان کی فوج نے محمد اسماعیل خان اور حاجی محمد منیر خان کی کمان میں فوج بھیج کر گلاوٹھی اور ہاپوڑ کے مابین برج ناتھ پور کے پل پر مورچہ جمایا۔ جس کی خبر موہن لعل کشمیری نے فوراً انگریزوں کو بھیج دی تو کپتان وارڈیلا نے موضع بٹھونہ کے جاٹوں کو آگے رکھ کر ان کی آڑ میں اپنے ڈریگونس کو ولی داد خان کے محاذ کے نزدیک پہنچا دیا۔ پہلی قطار میں ہم وطنوں کے سبب انقلابی سپاہی انگریزی دستوں کی شناخت نہیں کر سکے۔ لڑائی میں فوج کے ساتھ علاقائی سورماوں اور گوجروں نے بھی مردانہ وار دست بہ دست داد شجاعت دی۔ کافی کشت و خون ہوا۔ تاہم غداروں کے سبب انگریز فتحیاب ہوئے۔ محمد اسماعیل خان اور حاجی منیر خان کو بھی زخمی ہوکر پیچھے ہٹنا پڑا۔

بہرکیف جاں نثاران وطن کا عزم، حوصلہ اور دلیری غداران وطن کی کرتوت کے آگے ماند پڑ گئی۔ سقوط دہلی کے بعد انگریز ی فوج یکے بعد دیگرے علاقوں کو کچلتے ہوئے مالا گڑھ پہنچی۔ آستین کے سانپوں کے سبب مالا گڑھ سے نواب ولی داد خان مع محمد اسماعیل خان، حاجی منیر خان اور رحیم خان وغیرہ کو روہیل کھنڈ کا رخ کرنا پڑا۔ حاجی منیر خان اور اسماعیل خان نے خان بہادر خان کی فوج کے ساتھ کچلہ گھاٹ پر انگریزی فوج سے دو دو ہاتھ کیے۔ منیر خان روہیل کھنڈ میں ہی برطانوی دستے سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔

عبداللطیف خان کے چچا اعظم خان جنہیں نواب ولی داد خان نے ضلع کی ذمہ داری سونپی تھی، انہوں نے انگریزی فوج کے خلاف خورجہ میں سخت مزاحمت کی اور چند دنوں کے لیے انہیں مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔


الحاصل 4 اکتوبر 1857ء کو لیفٹیننٹ کرنل فرخور کی زیر کمان فوج نے بلند شہر پر غلبہ قائم کر لیا۔ حالات کے مدنظر عبداللطیف خان نے برطانوی انتظامیہ کو زمینی محصول کے بقایا جات ادا کر دیے۔ مگر انگریز حکام نے انہیں انقلابی خیمے کا ساتھ دینے کے جرم میں گرفتار کر لیا اور ایک نمائشی فوجی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی جس میں چار الزامات عائد کیے گئے، جن کی پاداش میں عبداللطیف خان کے لیے سزائے کالا پانی تجویز ہوئی اور تمام ریاست خان پور مع موروثی مکانات اور تمام مال و زر ضبط کر لیا گیا۔ ان کی جاگیر کے ایک بڑے حصے کو وفاداری کے صلے میں نواب سردھنہ کے چچا سردار بہادر سید میر خان کو بطور انعام میں دے دیا گیا۔

عبداللطیف خان کے چچا اعظم خان کو روہیل کھنڈ فرار ہونے کی کوشش میں گنگا پار کرتے وقت انوپ شہر کے جاٹ پولیس افسر خوشی رام نے حراست میں لے لیا، جنہیں فوجی عدالت نے آناً فاناً میں سزائے موت دے دی۔

برطانوی نو آبادیاتی نظام سے مادر ہند کو چھٹکارا دلانے کے لیے 225 گاوں پر مشتمل خان پور اسٹیٹ کے مالک خانوادے نے اپنی جان و مال نیز اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ لیکن ان کی قربانی تاریخ ہند کے اوراق میں گم ہو گئی۔ تاہم امرت مہااتسو کے موقع پر جب حکومت نے ان کے آبائی وطن خان پور میں ان کی جاں نثاری کی یادگار کے طور پر ایک پتھر کندہ کرانا چاہا تو کچھ شرپسندوں نے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔