ایس جے شنکر کا پاکستان دورہ: پالیسی میں تبدیلی یا دباؤ کا نتیجہ...سہیل انجم

وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ ہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا سرحد پار کی دہشت گردی بند ہو گئی ہے یا پھر مودی حکومت نے پاکستان کی جانب کوئی کھڑکی کھولنے کا ارادہ کیا ہے؟

ایس جے شنکر، تصویر یو این آئی
ایس جے شنکر، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

جب گزشتہ دنوں ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں اعلان کیا کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کثیر ملکی گروپ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں تو سفارتی و صحافتی حلقوں میں یہ پوچھا جانے لگا کہ کیا پاکستان کے تعلق سے مودی حکومت کی پالیسی بدل رہی ہے یا پھر یہ فیصلہ کسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے کہ مودی حکومت نے ڈاکٹر من موہن سنگھ اور اٹل بہاری واجپئی کی سابقہ حکومتوں کے برعکس پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق قائم کرنے سے انکار کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ لیکن اب جبکہ وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ ہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا سرحد پار کی دہشت گردی بند ہو گئی ہے یا پھر مودی حکومت نے پاکستان کی جانب کوئی کھڑکی کھولنے کا ارادہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں یہ اجلاس پندرہ اور سولہ اکتوبر کو ہو رہا ہے۔

حالانکہ حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ دورہ صرف ایس سی او اجلاس تک ہی محدود رہے گا اس کا کچھ اور مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ اگر آگے چل کر اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ میں بہت اہم ہوگا۔ ایس جے شنکر نے بھی ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا دورہ صرف ایک کثیر فریقی پروگرام کے لیے ہو رہا ہے نہ کہ ہند پاک تعلقات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے۔ لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے ایک جملہ اور ادا کیا ہے۔ ان کے مطابق جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں ایک شائستہ شخص ہوں لہٰذا میں وہاں اسی طرح کے رویے کا مظاہرہ کروں گا۔ اس ثانی الذکر جملے کا کوئی مطلب بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا۔ کیونکہ سفارت کاری میں ہر بات کھول کر نہیں کہی جاتی۔ بہت سی باتیں ڈھکے چھپے انداز میں کہی جاتی ہیں۔ اس لیے اگر یہ جملہ اپنے آپ میں کوئی معنی رکھتا ہو تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔


خیال رہے کہ بحیثیت وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا اور کسی ہندوستانی وزیر خارجہ کا نو سال کے بعد ہونے والا دورہ ہوگا۔ اس سے قبل سابق وزیر خارجہ سشما سوراج نے دسمبر 2015 میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ’ہارٹ آف ایشیا‘ فارمیٹ کی سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی جو کہ افغانستان کے موضوع پر تھی۔ انھوں نے اس دورے میں پاکستان کے سینئر اہل کاروں سے تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کا آخری اعلیٰ سطحی دورہ اگست 2016 میں اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے دورے کی شکل میں ہوا تھا۔ انھوں نے جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون تنظیم ’سارک‘ کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ سشما سوراج کے دورے کے چند روز بعد وزیر اعظم نریندر مودی افغانستان کے راستے لوٹتے وقت اچانک پاکستان رک گئے تھے اور انھوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ان کے یوم پیدائش کی مبارک باد پیش کی تھی۔ مودی کا وہ دورہ 11 سال بعد کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ بعد ازاں متعدد واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ ہو گئے۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ موجودہ بی جے پی کی سیاست کی بنیاد پاکستان اور مسلم مخالفت پر رکھی ہوئی ہے۔ پاکستان کو جتنا بھلا برا کہا جائے گا اس کی سیاست میں اتنی ہی چمک آئے گی۔ اسی لیے جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو مسلمانوں کو فوراً پاکستان کا طعنہ دیا جاتا ہے اور حکومت کے خلاف بولنے والوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم پاکستان بھیج دینے کی بات کہی جاتی ہے۔ اس سیاست سے بی جے پی کو فائدہ بھی پہنچا ہے۔ حالانکہ وہ ہندوستان کا قریبی ہمسایہ ملک ہے اور اس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات تلخ و شیریں رہے ہیں۔ تاہم ہندوستان کی کوشش رہی ہے کہ دوستانہ رشتے قائم ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ سرحد پار کے دہشت گرد یہاں اپنی سرگرمیاں انجام دیتے رہے ہیں۔


مودی حکومت نے ان سرگرمیوں کی وجہ سے ہی پاکستان سے ایک دم ناطہ توڑ لیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب ہندوستان میں دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے۔ جموں و کشمیر میں اب بھی ہو رہے ہیں۔ سنجیدہ طبقات کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ تنازعات کو مذاکرات سے حل کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی مسئلہ میدان جنگ میں حل نہیں ہوتا۔ وہ حل ہوتا ہے تو بات چیت کی میز پر۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی یوکرین روس کی جنگ ہو یا اسرائیل اور حماس کی جنگ یا پھر اسرائیل اور ایران کے مابین ممکنہ جنگ، مذاکرات کی اپیل کرتے رہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ رشتوں کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ یہی فارمولہ پاکستان کے تعلق سے کیوں نہیں اپناتے؟

جہاں تک کسی دباؤ کی بات ہے تو تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان پر روس کا دباؤ ہے۔ خیال رہے کہ روس ایس سی او کا ایک اہم رکن ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان کے پاس ایس سی او سربراہی اجلاس میں شرکت کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ اگر وہ اجلاس میں شرکت نہیں کرتا تو اسے گروپ کے ایک اہم رکن روس کے ساتھ اس کے ناروا سلوک کے طور پر دیکھا جاتا۔ اس سے قبل گزشتہ سال جب جون میں گوا میں ایس سی او کا اجلاس ہوا تھا تو اس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے شرکت نہیں کی تھی۔ حالانکہ ایس جے شنکر کے مطابق ایس سی او اجلاس میں عام طور پر وزیر اعظم یا سربراہ مملکت ہی شرکت کرتے ہیں، یہ اس کی روایت رہی ہے۔ اس کے باوجود مودی نے گزشتہ اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس لیے اگر اس بار کے اجلاس میں ہندوستان شرکت نہیں کرتا تو روس کی خفگی کا ڈر تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ چین، روس، کرغزستان، قزاقستان، تاجکستان اور ازبکستان بھی ایس سی او کے رکن ہیں۔


بہرحال اس اعلان کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ہندوستان اور پاکستان کے باہمی رشتوں پر جمی سردمہری کی برف پگھل رہی ہے اور کیا اس دورے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی پیش رفت کا امکان ہے۔ مبصرین ان سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہیں تاہم بعض تجزیہ کاروں نے اس فیصلے کو ہندوستان کا ایک جرات مندانہ قدم قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دورہ باہمی تعلقات کے سلسلے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ ہندوستان اور پاکستان کے رشتوں پر گہری نظر رکھنے والے اسلام آباد میں ہندوستان کے آخری ہائی کمشنر اجے بساریہ کا کہنا ہے کہ ایس جے شنکر کو بھیجنے کا فیصلہ ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ ہندوستان نے اس فیصلے سے مشکل دور سے گزر رہے باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش کا اشارہ دیا ہے۔ گیند اب پاکستان کی کورٹ میں ہے۔ اسے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو طرفہ بامعنی ملاقاتوں کی تجویز پیش کرنی چاہیے۔

(اس مضمون میں پیش کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں، جو ادارے کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔