جنگ آزادی میں اردو صحافت کا کردار... سہیل انجم

قومی آواز روز اوّل سے ہی آزادی کی لڑائی میں شامل رہا، اس نے دو قومی نظریہ کی بھی ہر طرح سے نفی کی، وہ اپنے اجرا کے چند مہینوں کے اندر ہی بے حد مقبول ہو گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

’جنگ آزادی میں اردو صحافت کا کردار‘ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو بہت وسیع بھی ہے اور بہت دلپذیر بھی ہے۔ جنگ آزادی کی پوری تاریخ اردو اخباروں کے ولولہ انگیز کردار سے بھری پڑی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 1822 میں کلکتہ سے شروع ہونے والے اردو کے پہلے اخبار ”جام جہاں نما“ سے ہی برٹش حکومت کے استبدادی رویے کے خلاف احتجاج کی روایت ملتی ہے۔ حالانکہ جام جہاں نما آزادی کی لڑائی کے لیے نہیں نکالا گیا تھا۔ تاہم جب برٹش حکومت نے مشنریوں کے اخبارات کے لیے محصول ڈاک کی شرح کم اور دیسی اخباروں کے لیے زیادہ مقرر کی تو جام جہاں نما کے بانی ہری ہر دت نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ گویا ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا شروع سے ہی اردو صحافت کے خمیر میں شامل رہا ہے۔

جب مولوی محمد باقر نے 1837 میں دہلی سے اردو کا پہلا اخبار ’دہلی اردو اخبار‘ جاری کیا تو شروع میں اس کا رنگ مصالحانہ تھا لیکن 1857 کے غدر کے بعد باغیانہ ہو گیا۔ بالآخر مولوی باقر کو دہلی کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر کو باغیوں سے تحفظ میں ناکام رہنے کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی۔ انھیں اردو کا پہلا شہید صحافی کہا جاتا ہے۔ ان کے فرزند اور اردو کے صاحب طرز ادیب مولوی محمد حسین آزاد کے خلاف بھی وارنٹ جاری ہوا تھا مگر وہ انگریزوں کے ہتھے چڑھنے سے بچ گئے۔ انھی ایام میں دو اور اخبار نکلے ’صادق الاخبار‘ اور ’سید الاخبار‘۔ اول الذکر کے ایڈیٹر جمیل الدین ہجر تھے تو ثانی الذکر کے سرسید کے بھائی سید محمد خاں تھے۔ یہ دونوں اخبار بھی برطانوی حکومت کے خلاف شمشیر برہنہ تھے۔


غدر کے دوران بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا بیدار بخت نے ’پیام آزادی‘ نامی اخبار نکالا تھا جس نے جنگ آزادی کی چنگاری کو شعلے میں بدل دیا۔ برطانوی حکومت اس سے نہ صرف بہت ناراض بلکہ خائف بھی تھی۔ لہٰذا اس نے اس اخبار کے خلاف تو کارروائی کی ہی اس کے قارئین کو بھی نہیں بخشا اور جس کے یہاں سے اس اخبار کی کوئی کاپی مل جاتی اسے بھی مظالم کا نشانہ بنایا جاتا۔ حکومت نے بالآخر مرزا بیدار بخت کو پھانسی دے دی۔ اسی طرح 1857 کے آس پاس متعدد اخبارات نکلے جن میں سے کئی حکومت کے عتاب کا شکار بن کر دم توڑ گئے۔

بیسویں صدی میں حکومت مخالف اردو اخبارات کا سیلاب آگیا۔ مولانا حسرت موہانی نے 1903 میں علیگڑھ سے رسالہ ’اردوئے معلی‘ جاری کیا اور پہلے ہی شمارے میں مکمل آزادی کا نعرہ بلند کر دیا۔ انھوں نے ہی انقلاب زندہ باد کا نعرہ بھی دیا تھا۔ انھوں نے 1908 میں اردوئے معلی میں حکومت کے خلات انتہائی سخت مضمون لکھا جس کے نتیجے میں انھیں جیل میں ڈال دیا گیا جہاں انھیں یومیہ ایک من آٹا پیسنا پڑتا تھا جس پر انھوں نے یہ معرکۃ الآرا شعر کہا تھا: ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی، اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی۔

1907 میں الہ آباد سے ’سوراجیہ‘ نامی اخبار جاری ہوا جو محض ڈھائی سال نکلا لیکن اس قلیل مدت میں ہی اس کے چار ایڈیٹروں کو باغیانہ اداریے اور نظمیں شائع کرنے کی پاداش میں کالے پانی کی سزا ہوئی۔ دو ایڈیٹر لالہ لدھا رام اور نند گوپال کو تیس تیس سال کی قید بامشقت، بجو رام کو اکیس سال اور ہوتی رام کو دس برس کی قید ہوئی۔ بانی ایڈیٹر شانتی نرائن بھٹناگر کو ساڑھے تین سال قید با مشقت کی سزا ہوئی۔

بیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں تو اردو کے اتنے انقلابی اخبارات نکلے کہ حکومت لرز کر رہ گئی۔ اس نے ان اخباروں اور ان کے ایڈیٹروں پر مظالم کے پہاڑ توڑے لیکن اردو صحافت کے پائے استقلال میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی اور وہ برطانوی حکومت کے خلاف اس وقت تک سینہ سپر رہی جب تک کہ ملک آزاد نہیں ہو گیا۔ کیا کوئی شخص اخبار ’زمیندار‘ کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خاں کی قربانیوں کو فراموش کر سکتا ہے۔ وہ ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پرجوش شاعر بھی تھے۔ ان کے مضامین اور نظموں سے حکومت بوکھلا جاتی۔ اس نے انھی بارہا جیل میں ڈالا۔


اسی قافلے میں مولانا ابوالکلام آزاد بھی شامل ہیں۔ انھوں نے 13جولائی 1912 کو کلکتہ سے ’الہلال‘ نکالا تو وہ ایک انقلابی معجزہ ثابت ہوا۔ اس نے معاصر رہنماؤں کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ سوتے سوتے جاگ اٹھے۔ سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کہا کرتے تھے کہ میں الہلال کے مطالعے کے سبب خارزارِ سیاست میں داخل ہوا۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کہتے ہیں کہ سیاست کا چسکہ مجھے الہلال نے ڈالا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کے مطابق ابوالکلام نے الہلال کا صور پھونک کر ہم سب کو جگایا۔ قاضی عبد الغفار کا طرزِ تحریر اپنا تھا لیکن حسن تحریر الہلال کا تھا۔ اپنے دور کے عظیم خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا اعتراف ہے کہ الہلال نے مجھے خطابت سکھائی، سیاست پڑھائی اور زبان و بیان کی ندرت بخشی۔ ادھر دیکھیے مولانا محمد علی جوہر ہیں جنھوں پہلے اپنے انگریزی اخبار ’کامریڈ‘ اور پھر اردو اخبار ’ہمدرد‘ سے انگریزوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ بجنور سے نکلنے والے مولوی مجید حسن کے اخبار ’مدینہ‘ کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ یہ اخبار جنگ آزادی کے ہر اول دستے میں شامل رہا۔

صرف مسلم صحافیوں نے ہی اپنے اخباروں کے توسط سے جنگ آزادی میں شرکت نہیں کی بلکہ غیر مسلم صحافیوں نے بھی خود کو اور اپنے اخباروں کو اس لڑائی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان میں صوفی انبا پرشاد، ساگر چند مہاجن گورکھا، پنڈت میلا رام وفا، مہاشہ کرشن، مہاشہ خوشحال چند خورسند، رنبیر، لالہ دیش بندھو گپتا اور سردار دیوان سنگھ مفتوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ مہاشہ کرشن نے 30 مارچ 1919 کو لاہور سے روزنامہ پرتاپ جاری کیا۔ اجرا کے بارہ دن بعد ہی اس پر سنسر شپ عائد کر دی گئی جسے مہاشہ کرشن نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور احتجاج میں اپنے اخبار کی اشاعت معطل کر دی۔ ان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد تقریباً آٹھ بار پرتاپ کی ضمانت ضبط ہوئی اور مہاشہ کرشن کو مزید دو بار جیل ہوئی۔

سردار دیوان سنگھ مفتوں نے 1924 میں دہلی سے ہفت روزہ ’ریاست‘ نکالا تھا۔ وہ پندرہ بار گرفتار ہوئے اور پانچ جیلوں کے اسیر رہے۔ اس وقت یہ مشہور تھا کہ پورے ملک میں یا تو برطانوی حکومت کے جاسوس پھیلے ہوئے ہیں یا دیوان سنگھ مفتوں کے نمائندے۔ اسی طرح بیس فروری 1925 کو تحریک آزای میں پیش پیش رہنے والی علما کی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کا اخبار ’الجمعیۃ‘ جاری ہوا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس کے ابتدائی مدیر رہے۔ اس کے بعد کچھ دوسرے لوگ اور پھر مولانا محمد عثمان فارقلیط مدیر ہوئے۔


آزادی سے عین قبل پورے اترپردیش میں مسلم لیگ کے ترجمان روزنامہ ’تنویر‘ کا طوطی بولتا تھا۔ اس کے رد میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لعل نہرو نے دسمبر 1945 میں اردو روزنامہ ’قومی آواز‘ کا اجرا کیا۔ قوم پرست صحافی حیات اللہ انصاری کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ قومی آواز روز اوّل سے ہی آزادی کی لڑائی میں شامل رہا۔ اس نے دو قومی نظریہ کی بھی ہر طرح سے نفی کی۔ وہ اپنے اجرا کے چند مہینوں کے اندر ہی بے حد مقبول ہو گیا۔

جنگ آزادی میں اردو صحافت کے کردار کا یہ ایک مختصر سا گوشوارہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جد و جہد آزادی میں اردو اخبارات کی تاریخ بہت طویل ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آزادی کی لڑائی سب سے پہلے اردو اخباروں نے ہی لڑی۔ دوسری زبانوں اور خاص طور پر انگریزی کے اخبار برطانوی حکومت کی ہمنوائی کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ دیسی اخباروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ جنگ آزادی میں اردو صحافت کی روشن تاریخ کو کسی بھی طرح مٹایا نہیں جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔