مذہبی جنون نہیں تحقیقی سوچ کی ضرورت ہے

دھیریندر کرشنا شاستری جن کے دو بھائی اور ایک بہن ہے وہ محض 26 سال کی عمر میں سرخیوں میں آ گئے ہیں کیونکہ وہ مایوسی کے اس دور میں ایک مذہب کے ایجنڈے کی تشہیر اور تبلیغ کر رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ٹوئٹر /&nbsp;<a href="https://twitter.com/bageshwardham">@bageshwardham</a></p></div>

تصویر ٹوئٹر /@bageshwardham

user

سید خرم رضا

بالاجی مہاراج کہئے یا باگیشور مہاراج کہئے مگر دھیریندر کرشنا شاستری آج کل جہاں ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں وہیں خاموشی سے ایک طبقہ ان میں اپنے تمام مسائل کا حل دیکھ رہا ہے۔ ان کی وجہ سے جادو یعنی میجک کے فن کی خوب چرچا ہو رہی ہے۔ ان کے دعووں کی تردید کے لئے بہت سارے جادو گر کہئے یا ذہن کو پڑھنے والا کہئے وہ میدان میں کود گئے ہیں۔

دھیریندر کرشنا شاستری جن کے دو بھائی اور ایک بہن ہے وہ محض 26 سال کی عمر میں سرخیوں میں آ گئے ہیں کیونکہ وہ مایوسی کے اس دور میں ایک مذہب کے ایجنڈے کی تشہیر اور تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس ملک میں جہاں کروڑوں بچوں کو بنیادی غذا دودھ دستیاب نہیں ہوتا وہاں گنیش جی کی مورتی کو چند گھنٹوں میں لوگ ٹنوں دودھ پلا دیتے ہیں اور وہ اس پر یقین کرنے لگتے ہیں کہ بھگوان کی مورتی دودھ پی رہی ہے۔ ایسے ملک میں مایوسی کے اس دور میں لوگ دھیریندر شاستری کی باتوں پر کیوں نہ یقین کریں؟ لوگوں کو اپنے مسائل کا حل دھیریندر شاستری کے بیانوں اور چمتکاروں میں نظر آتا ہے اور وہ اس بات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کی بات تو بہت دور کی بلکہ جو اس پر سوال اٹھاتا ہے وہ اس کو ایک خاص مذہب کا مخالف اور ملک مخالف ہونے کی اسناد بانٹ دیتے ہیں۔


مدھیہ پردیش کے ضلع چھترپور کے گاؤں گڈا میں پیدا ہوئے دھیریندر شاستری جس طرح سے قومی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اس نے صحافت پر تو سوال کھڑے کر ہی دیئے ہیں ساتھ میں عوام کے ذہنوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ اس سب کے لئے حکومت تو ذمہ دار ہے ہی لیکن اس سے ہمارے ذرائع ابلاغ کے دوالیہ پن کا بھی احساس ہوتا ہے۔ کوئی بڑا چینل ایسا نہیں ہے جس نے دھیریندر شاستری کی خبر نہ چلائی ہو اور اس کا انٹرویو نہ لیا ہو۔ ایک چینل کے ایک صحافی تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے دھیریندر شاستری کے لئے نعرے لگا دیئے۔

جادو کرنے والوں سے میرا کیا زیادہ تر لوگوں کا زندگی کے کسی نہ کسی مرحلہ میں سابقہ ضرور پڑا ہوگا اور وہ اس کے تمام پہلوؤں سے واقف بھی رہے ہوں گے۔ سائنس کے اس جدید دور میں جب یہ ممکن ہے کہ قطر میں کھیلے جانے والے فٹبال میچ کو اسی وقت دنیا کے ہر کونے میں دیکھا جا سکتا ہے جس وقت وہ میچ ہزاروں شائقین کے سامنے کھیلا جا رہا ہو یا آپ بالمشافہ بیرون ملک میں اپنی اولاد یا دوست سے کسی بھی وقت بات کر سکتے ہوں، ایسے دور میں اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے اور اس کو اس قدر تشہیر دی جاتی ہے تو پھر اس کے مقصد پر سوال اٹھائے جانا لازمی ہے۔


ذرائع ابلاغ میں جس انداز سے اس سارے معاملہ کی تشہیر ہوئی ہے اس سے دال میں کچھ کالا ہونے کی بات سے کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام بہت سادہ اور معصوم ہیں، انہیں جو پروس دیا جاتا ہے اسی کو اپنی قسمت سمجھ کر وہ اپنے دماغ میں اتار لیتے ہیں۔ بی بی سی کی ڈوکیومینٹری پر سے توجہ ہٹانے کے بہت سارے طریقے ہو سکتے تھے جن میں اس کو غلط بیانی سے تعبیر کر کے آگے بڑھا جا سکتا تھا، لیکن دھیریندر شاستری پر بحث کرانے سے تین مقصد حل ہوتے ہیں ایک تو عوام کا ذہن پوری طرح اس میں الجھ کر رہ جائے گا دوسرا یہ کہ میڈیا کا پیٹ بھی بھر جائے گا اور بھرے پیٹ پر کسی اور چیز کی جانب وہ کیونکر دیکھیں گے اور تیسرا یہ کہ جو بھی دھیریندر شاستری پر سوال اٹھائے گا اس کو ایک طبقہ کی جانب سے ملک دشمن اور مذہب کے دشمن کی تشبیہ دینے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔

خالی بی بی سی ڈوکیومنٹری نہیں ہے اس ساری بحث سے کچھ یہی حال بھارت جوڑو یاتر ا کا بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کو بھی لوگوں کے دماغ اور میڈیا سے بلیک آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن چیزوں سے سیاسی طور پر نمٹا جا سکتا ہے ان سے نمٹنے کے لئے لوگوں کے ذہنوں سے کیا کھیلنا ضروری ہے؟ کیا سائنس کے اس دور میں ہمیں ان دعووں کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہئے؟ کیا ہمیں ملک کی ترقی کو ذہن میں نہیں رکھنا چاہئے؟ ملک کو لاتعداد مسائل درپیش ہیں، بے روزگاری، معیشت، سرحدی معاملات، جوشی مٹھ جیسے اندرونی معاملات اور اگر ایسے ان مسائل کا حل ہو سکے تو پھر حکومت، کابینہ اور جدوجہد کی کی کیا ضرورت ہے؟ سیاسی لڑائی لڑیئے لیکن ایسی چیزوں کی حوصلہ شکنی کیجئے تاکہ ملک ترقی کر سکے۔ ملک میں ایک تحقیقی سوچ کو پروان چڑھائیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔