یومِ عاشورہ کی مذہبی اور اسلامی فضیلت...محمد مشتاق تجاروی

یوم عاشورہ کو تاریخ اسلامی کا وہ دردناک سانحہ پیش آیا اور نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ شہید کر دئے گئے، سارے عالم اسلام میں اس واقعہ کی مذمت ہوئی اور بعد میں یہ سانحہ ایک استعارہ بن گیا

<div class="paragraphs"><p>محرم / تصویر بشکریہ نجف ٹی وی</p></div>

محرم / تصویر بشکریہ نجف ٹی وی

user

محمد مشتاق تجاروی

محرم الحرام کی دس تاریخ یعنی یوم عاشورہ کو تاریخ اسلامی کا وہ دردناک سانحہ پیش آیا جس میں نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ کی شہادت ہو گئی۔ چونکہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک تھا، سارے عالم اسلام میں اس کی مذمت ہوئی اور بعد میں یہ سانحہ ایک استعارہ بن گیا۔ عوام الناس میں دس محرم سے مراد حضرت حسینؓ کی شہادت کا واقعہ ہی لیا جاتا ہے اور اس دن کی قدیم تاریخی اور مذہبی حیثیت کو کم یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت حسینؓ کی شہادت بھی بلا شبہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ امت اسلامیہ اس کا زخم ابھی تک نہیں بھول پائی ہے لیکن عاشورہ محرم یعنی محرم کی دس تاریخ کی مذہبی اور اسلامی فضیلت اس واقعہ سے پہلے سے تھی۔ دراصل یوم عاشورہ روزہ رکھنے کا دن ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشورہ کا روزہ ہی رکھا جاتا تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی عاشورہ کا روزہ ہمیشہ رکھا۔ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو ختم ہو گئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کا روزہ پابندی سے رکھتے رہے۔ اس طرح عاشورہ کا اللہ کے رسول کی دائمی سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کے روزے کا اہتمام اسی طرح کرتے تھے جس طرح رمضان کے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباس کی ایک روایت امام بخاری نے نقل فرکی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنوں میں عاشورہ اور مہینوں میں رمضان المبارک کے روزے کو سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ رکھتے ہوئے دیکھا۔‘‘ (بخاری، حدیث 1867)


اللہ کے رسول کا دائمی طریقہ ہونا اس بات کے لیے کافی ہے کہ مسلمان اس کا اہتمام کریں۔ یہی اس کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ تاہم احادیث میں اس دن کے روزے اور فضیلت بھی وارد ہوئی۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ’’امید ہے کہ یوم عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے۔‘‘ (مسلم 1162) اس لیے اس دن خصوصی اہتمام کے ساتھ روزہ رکھنا چاہیے۔

یوم عاشورہ کی تاریخی فضیلت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریائے قلزم پار کروایا اور فرعون کو غرق کر دیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانہ کے طور پر عاشورہ کے دن روزہ رکھا تھا۔ اس لیے یہودی بھی عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور کسی موقع پر آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ جب اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون کے عذاب سے نجات دلائی تو حضرت موسیٰ نے شکریہ کے طور پر آج کا روزہ رکھا۔ اس لیے ہم بھی آج کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ ہم موسیٰ کی روایت پر عمل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں اس لیے آپ نے صحابہ کرام کو اس روزہ کا اہتمام کرنے کی ترغیب دی۔

عام طور پر واعظین وغیرہ اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ مدینہ میں آنے کے بعد رکھنا شروع کیا ہو۔ یعنی حضرت موسیٰؑ کی اتباع میں یہود کے طرز عمل کو دیکھ کر شروع کیا ہو۔ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ رسول اللہ اور صحابہ کرام مکہ میں بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ بلکہ قریش یعنی مشرکین مکہ بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کا باضابطہ حکم فرمایا اور مدینہ میں اور اطراف میں سارے مسلمان اس روزے کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہو گئے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے روزے کو اختیاری بنا دیا، جو چاہے رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔ (بخاری 2001) البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اہتمام کے ساتھ رکھتے رہے اور اس دن کے روزے کا خصوصی اہتمام فرماتے رہے۔


عبادات میں جتنی عبادت مشروع ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اتنی ہی کرنا عین اتباع رسول ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا نفس کی اتباع ہے۔ اس لیے عاشورہ محرم کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ نے اس دن روزہ رکھا، ہم بھی روزہ رکھیں۔ اور یہ امید کریں کہ اس کے ذریعہ ہمارے گناہ معاف ہوں گے۔ اور اس طرح ہم اس تاریخی روایت سے بھی وابستہ ہو جائیں گے جو حضرت موسیٰ سے آج تک چلی آ رہی ہے۔ یعنی اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی۔گویا یہ دن استعارہ ہے مظلوم کی نصرت کا۔ اللہ تعالی ہم کو عاشورہ کا اسی طرح اہتمام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے جیسا اہتمام اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کرایا۔

(مضمون نگار ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔