رانی لکشمی بائی اور ان کے مسلمان ساتھی، یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیش کیش
رانی جھانسی ہندوستان کی عظیم سانجھی وراثت کی امانت دار اور پاسدار تھی، جن کا جھانسی تا گوالیار شہادت کوعزیز رکھنے والے مسلمان جانبازوں نے بھی شانہ بہ شانہ ساتھ دیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کو فرنگی اور سامراجی شکنجے سے آزاد کرانے میں صنف نازک نے بھی جذبہ سرفروشی کا ثبوت دیا ہے جنہوں نتائج کی پرواہ کیے بغیر نعرہ حریت بلند کیا اور مادر ہند کی حرمت پہ قربان ہوگئیں۔ جن خواتین نے سرفروشی وایثار وقربانی کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ان میں رانی لکشمی بائی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
لارڈ ڈلہوجی کی ریاستی غاصبانہ پالیسی کے تحت کمپنی اعلیٰ حکام نے رانی کے گود لیے بچے دامودر راؤ کو وارث ماننے سے انکار کر دیا۔ رانی نے قانونی چارہ جوئی بھی کی، لیکن سب بے سود۔ بعد ازاں کمپنی انتظامیہ نے سرکاری خزانے کو ضبط کر لیا نتیجتاً رانی کو جھانسی کا رانی محل چھوڑنا پڑا، جب کمپنی ذی اختیار کے ظلم و ستم کی اتنہا ہوگئی تو رانی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کیا۔
ِجھانسی میں 4 جون کو 12 نمبر پلٹن کے حولدار گوروبخش نے قلعہ کی میگزین اور خزانہ پر مسلط ہو کر بغاوت کا ناقوس پھونکا۔ جس میں 6جون کو جیل داروغہ بخشش علی بھی شامل ہوگئے۔ مولانا احسان علی نے مسلمانوں کو جنگ آزادی میں شامل ہونے کی تلقین کی، تو سر پہ کفن باندھ کر جم غفیر سڑکوں پر اتر آیا۔
7/جون کو بخشش علی کی کمان میں سردار کالے خاں رسالدار اور تحصیل دار محمد حسین نے قلعے پر یلغا ر کردی، فرنگیوں نے ہتھیار ڈالنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ جھانسی کے حالات سن کر انگریزی ایوانوں میں طوفان برپا ہوگا۔ انہوں نے17/دسمبر 1857ء کو جنرل سر ہیو روز کو انقلابیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجا، جو 16/مارچ 1858ء کو جھانسی پہنچا، سرہیو روز کی فوج کے ساتھ بریگیڈئیر اسٹوورٹ بھی آملا۔ رانی نے باندہ نواب علی بہادر ثانی سے تعاون کے لیے التجا کی، تو انہوں نے اپنی فوج کے تین ہزار سپاہ کو جن میں تین سو گولنداز جھانسی روانہ کیے۔
24/ مارچ کو کمپنی فوج کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ 26/مارچ کو توپ خانے کے کمانڈر غلام غوث خاں کی شدید گولہ باری کی زد میں آکر انگریزی اعلیٰ کمانڈر مارا گیا تو رانی نے غلام غوث خاں کو سونے کا کڑا بطور تحفہ دیا۔ تاہم جھانسی میں بیٹھے آستین کے سانپوں نے انگریزوں کی پوری مدد کی۔ جس میں رانی کا 4000/ سپاہیوں کا سر دار دولا جی سنگھ پیش پیش تھا۔ غداروں نے رانی کی توپوں میں بارود کی جگہ باجرہ بھر دیا۔ آخرکار 2/اپریل کی لڑائی آخری ثابت ہوئی، غلام غوث خاں اور خدا بخش کی گولہ باری سے انگریزوں میں افرا تفری مچ گئی، مگر ہیو روز کی فوج دولاجی سنگھ کی مخبری کی بدولت قلعے میں اندر داخل ہوگئی۔ غوث خاں اور خدابخش نے اپنی جانیں مادر ہند پرقربان کردیں۔ پھاٹک کا دربان خداداد خاں 2/اپریل 1858ء کو قلعے کی آخری خندق کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگیا۔ اس وقت قلعے میں خدا بخش بشارت علی کے زیر کمان ڈیڑھ ہزارافغانی فوجی موجود تھے۔ انہوں نے نیام سے تلوار نکال کر انگریزوں کے حوصلے پست کر دیئے۔
رانی کو کیپٹن روڈرک بریگز نے اپنا شکار بنانے کے لئے آگے بڑھا، لیکن رانی کے گھوڑسواروں کی وجہ سے اس کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا، رانی کی حرمت پہ سر دار برہان الدین نے اپنی جان نثار کردی، اسی اثنا میں جنرل ہیو روز کی تازہ دم اونٹ سواروں کی کمک آگئی، جس نے لڑائی کا رخ موڑ دیا۔ انگریزوں نے بندوقوں سے حملہ شروع کر دیا، رانی کے افغانی دستے کے پاس بندوقیں نہیں تھیں۔ مقابلہ ایک طرفہ ہوگیا۔ 4/اپریل 1858ء کو انگریز جھانسی پر قابض ہوگئے۔ رانی جھانسی سے نکل کر کالپی پہنچی اور 2/جون1858ء کو جیاجی راؤ سندھیا کی ریاست گوالیار پر غالب ہوگئیں۔
17/جون 1857ء سر ہیو روز برگیڈیر اسمتھ اور میجر روز نے گوالیار پر حملہ کر دیا، رانی کے ساتھ نواب باندہ نواب علی خاں بہادر بھی جنگی محاذ پر موجود تھے۔ گھمسان رن ہوا۔ قیامت کی گھڑی میں رانی کے ساتھ دو سہیلیاں مندرا (مسلم) اور کاشی بھی کندھے سے کندھا ملاکر لڑ رہی تھیں۔ آخرکار رانی انگریزوں کے گھیرے میں پھنس گئی، رانی نے انگریزی نرغے کو توڑنے کے لیے گھوڑے کو ایڑ لگائی، انگریز گھوڑ سواروں نے پیچھا کیا،عین اسی وقت ایک گولی مندرا کو آکر لگی اور وہیں شہید ہوگئی۔ اسی بیچ رانی بھی ایک انگریزی فوجی کی سنگین سے زخمی ہوگئی۔ رانی نے لڑتے لڑاتے میدان جنگ میں اپنی جان دے دی۔ رانی کی شہادت کے وقت وفادار محافظ گل محمد، رگھوناتھ سمہا، رام چندرا راؤ دیشمکھ اور دامودر راؤ (متبنیٰ لڑکا) جائے واردات پر موجود تھے۔ رانی کے جسد خاکی کو بابا گنگا داس کی جھونپڑی میں لے جایا گیا، جہاں ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کر دیا گیا۔
رانی جھانسی ہندوستان کی عظیم سانجھی وراثت کی امانت دار اور پاسدار تھی، جن کا جھانسی تا گوالیار شہادت کوعزیز رکھنے والے مسلمان جانبازوں نے بھی شانہ بہ شانہ ساتھ دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔