راجیو گاندھی کی سوچ کے سبب ہندوستان میں ٹیلی مواصلات اور آئی ٹی انقلاب ممکن ہو سکا... یومِ پیدائش کے موقع پر

بیشتر ہندوستانیوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ راجیو گاندھی کے ساتھ ہم نے کیا کھو دیا ۔ راجیو کے بے وقت انتقال کے سبب ہندوستان 10-20 سال پیچھے رہ گیا

<div class="paragraphs"><p>راجیو گاندھی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

راجیو گاندھی، تصویر سوشل میڈیا

user

سیم پترودا

میں ایک بار 1980 میں ہندوستان آیا اور اپنی بیوی کو دہلی سے شکاگو فون نہیں کر سکا۔ اسی وقت میں نے ہندوستانی ٹیلی فون نظام کو درست کرنے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے یہ فیصلہ غرور اور ناسمجھی میں لیا تھا۔ ہندوستانی نظام کے بارے میں مجھے جتنا تین برسوں میں سیکھنے کو ملا اگر وہ مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں شاید ایسی کوشش کبھی نہ کرتا۔ کبھی کبھی ناسمجھی بڑی کام کی چیز ہوتی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی کے 10 سال ہندوستان کے ٹیلی فون نظام کو ٹھیک کرنے میں لگاؤں گا۔

مجھے بتایا گیا کہ اگر میں واقعی ایسا کرنا چاہتا ہوں تو مجھے مسز اندرا گاندھی سے ملنا ہوگا، کیونکہ صرف وزیراعظم کی رضامندی سے ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ گجرات کے بیریا کے مہاراجہ اس وقت پارلیمنٹ کے رکن تھے۔ انہوں نے مجھے مسز گاندھی سے ملنے کے لیے وقت مانگنے میں مدد کی۔ لیکن پھر مجھے ان سے ملنے کے لیے 8 ماہ انتظار کرنا پڑا۔ جب میں ان سے ملا تو ان کی پوری کابینہ (راماسوامی وینکٹ رامن، پرنب مکھرجی، ارجن سنگھ، گنڈو راؤ) اجلاس میں موجود تھی۔ مجھے پریزنٹیشن دے کر مسز گاندھی کو بتانا تھا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، جدید سافٹ ویئر، جدید مائیکرو پروسیسر، مقامی نوجوان صلاحیت، دیہی رسائی، مقامی پیداوار وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جانے والی دیسی ترقی کس طرح ہندوستان کی شکل بدل دے گی۔ راجیو گاندھی بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اجلاس میں موجود تھے اور یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ اور میں تقریباً ہم عمر ہی تھے اور اس اجلاس کے دوران ہی ہم میں قربت بڑھ گئی۔ انہوں نے میرے پیغام، جوش و خروش اور توانائی کو سمجھا۔ انہوں نے متنوع اور وسیع ہندوستان کو کئی زبانوں کے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت کو بھی سمجھا۔


مسز گاندھی کا 1984 میں انتقال ہو گیا، تب تک راجیو اور میں کافی قریب آ چکے تھے۔ ہم ٹیکنالوجی، ٹیلی کام، ہندوستان کے چیلنجز اور بہت سے دیگر مسائل پر باقاعدگی سے بات کرتے۔ ہم پیشہ ورانہ دوست بن گئے تھے۔ بعد میں، میں نے باضابطہ طور پر ایک وزیر کے درجے کے ساتھ ٹیکنالوجی مشن کے مشیر کے طور پر ان کے لیے کام کیا۔ راجیو کو اچھی طرح سے سمجھ آتا تھا کہ ہندوستان کو کیا چاہیے اور ہمیں کیا کرنا ہے! میں نے ان میں ایک ایسے لیڈر کو دیکھا جس کے پاس ٹیکنالوجی، آزاد کاری، نجکاری اور عوامی شراکت داری پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مستقبل کا ہندوستان بنانے کی سیاسی خواہش تھی۔ آج ہم سافٹ ویئر، ٹیلی کام اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ترقی کر رہے ہیں وہ راجیو گاندھی کی سیاسی خواہش کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

ہر ملک کی طرح ہندوستان میں بھی سیاسی عزم بہت اہم ہے۔ جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر ہومی جہانگیر بھابھا کی وجہ سے ہم نے ایٹمی توانائی کے میدان میں ترقی کی، مسز گاندھی اور وکرم سارا بھائی کی وجہ سے ہم نے خلا کی تحقیق میں ترقی کی اور اسی طرح مسز گاندھی، ایم ایس سوامیناتھن اور کچھ دیگر لوگوں نے سبز انقلاب لانے میں مدد کی۔ اسی طرح ڈاکٹر کورین نے کئی وزرائے اعظم کے ساتھ مل کر دودھ کے انقلاب پر کام کیا۔ راجیو گاندھی کے تعاون کی وجہ سے ہی ہم نے اس وقت ٹیلی کام اور آئی ٹی انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کی حمایت سے ہم نے مستقبل کے لیے ڈیجیٹل مصنوعات اور نیٹ ورک کی ضرورت کے لیے ٹیکنالوجی اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے 1984 میں سی ڈاٹ (سینٹر فار ڈیولپمنٹ آف ٹیلی میٹکس) قائم کیا۔

راجیو گاندھی کے ساتھ مختلف مواقع پر میری دلچسپ بات چیت ہوئی جو سخاوت، دوسروں کا خیال رکھنے، باریک بینی، لوگوں کو مہارت سے آراستہ کرنے جیسے پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔


جب وزیراعظم کے طور پر راجیو واشنگٹن آئے، تو میں نے سوچا کہ شکاگو سے واپس ہندوستان جانے سے پہلے ایک بار اپنی بیوی کو ان سے ملواؤں۔ میں نے ہندوستانی سفیر کو فون کیا اور راجیو گاندھی سے ملاقات کرانے کی درخواست کی۔ سفیر نے بتایا کہ ان کا پورا دن کا پروگرام طے ہے اور کہیں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نے پھر بھی درخواست کی کہ ایک بار راجیو گاندھی سے پوچھ لیں۔ میری درخواست پر سفیر نے راجیو گاندھی سے پوچھا تو وہ خوشی سے تیار ہو گئے۔ انہوں نے اپنی دو میٹنگوں کے اوقات میں پھیر بدل کر کے 15 منٹ کا وقت نکالا۔ اپنے تین دوستوں اور بیوی کے ساتھ میں ان سے ملنے پہنچا۔ وہ میرے دوستوں سے بہت محبت کے ساتھ ملے اور میری بیوی انو کو اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ پھر انو سے کہا کہ آخر آپ کے لیے سب سے ضروری کیا ہے، بچوں کی تعلیم ہی نہ! تمام سیاسی مصروفیات کے درمیان ان میں ایک فکر مند ماں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت تھی۔ انو بہت متاثر ہوئیں اور ہندوستان واپس جانے کو تیار ہو گئیں۔

بیشتر ہندوستانیوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ راجیو گاندھی کے ساتھ ہم نے کیا کھو دیا ۔ راجیو کے بے وقت انتقال کے سبب ہندوستان کی ترقی کو کتنا بڑھا جھٹکا لگا یہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہندوستان 10-20 سال پیچھے رہ گیا۔ راجیو سائنسدان ذہن، منطقی سوچ، جدید خیالات والے شخص تھے۔ وہ عالمی نظریہ رکھنے والے ایسے شخص تھے جنہیں ملک اور جمہوری اقدار کی عزت تھی۔ غریبوں اور دیہی ہندوستان کے لیے فکر تھی۔ راجیو کے وزیراعظم رہتے 1988 کے آس پاس سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف ہندوستان آ رہے تھے اور میں ان سے ملنا چاہتا تھا۔ لیکن دونوں طرف کے اہلکاروں نے انکار کر دیا۔ پھر راجیو گاندھی نے مجھے بلایا اور کہا کہ گورباچوف سے میری ملاقات مشکل ہے۔


میں نے تجویز دی کہ وزیراعظم آفس میں ڈنر کے بعد کافی پیتے ہوئے ہماری ملاقات ہو سکتی ہے۔ وہ تیار ہو گئے۔ جب گورباچوف اور ان کی بیوی ڈنر کے لیے آئے تو راجیو نے انہیں ہندوستان کی صارف، دفاعی اور آئی ٹی صلاحیتوں پر گفتگو کرنے کے لیے تیار کر لیا۔ اور پھر ہماری وہ ملاقات ایک گھنٹہ چلتی رہی۔ ہم انہیں صارفین کی اشیاء فروخت کرنا چاہتے تھے۔ واپس جانے کے 30 دن کے اندر گورباچوف نے 20 ماہرین کی ٹیم کو اس سمت میں امکانات تلاش کرنے کے لیے بھیج دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ راجیو ہمیشہ نئے آئیڈیاز کا استقبال کرتے تھے۔ وہ جوکھم لینے، رکاوٹوں کو ختم کرنے اور اتفاق رائے بنانے کے لیے تیار رہتے تھے۔

1987 میں ہم امید کر رہے تھے کہ امریکہ ہمیں کرے سپر کمپیوٹر دے گا لیکن راجیو گاندھی کو صدر رونالڈ ریگن کا فون آیا اور انہوں نے انکار کر دیا کہ ہندوستان اس کا استعمال ایٹمی تحقیق میں کر سکتا ہے۔ ہمیں مایوسی ہوئی لیکن راجیو نے سائنسی مشیر کونسل کی تجویز قبول لی کہ ہمیں اپنا سپر کمپیوٹر بنانا چاہیے۔ ہندوستان نے فوری طور پر پونے میں سی ڈیک قائم کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1990 میں زیورخ سپر کمپیوٹنگ شو میں ہم نے ایک سپر کمپیوٹر کا پروٹو ٹائپ پیش کیا جو امریکہ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے طاقتور سپر کمپیوٹر تھا۔

جب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ گزشتہ سالوں میں بھارت میں کچھ نہیں ہوا، تو مجھے ان کی ناسمجھی پر افسوس ہوتا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ قوم کی تعمیر ایک پیچیدہ عمل ہوتی ہے اور اس کے لیے سیاسی قیادت کی پالیسی کے فیصلے سے لے کر متعلقہ ماہرین، ٹیکنالوجی، وقت اور وسائل کا ایک مجموعہ ضروری ہوتا ہے۔ راجیو گاندھی حقیقی معنوں میں ایک قوم ساز تھے اور آج ہم جن کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں، ان میں کئی کا سہرا انہیں جاتا ہے۔

(ایشلین میتھیو سے بات چیت پر مبنی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔