راہل گاندھی، امید کی کرن
تاریخی کانگریس پارٹی میں آج ایک نیا باب جڑ رہا ہے، جب راہل گاندھی اس پارٹی کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے جا رہے ہیں۔
لیجئے صاحب، وہ دن آ ہی گیا جس کا ذکر اور انتظار بہت سالوں سے ہو رہا تھا۔ راہل گاندھی آج باقائدہ تاریخی انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے جا رہے ہیں۔ کسی بھی شخص کے لئے کسی بھی پارٹی یا تنظیم کی ذمہ داری سنبھالنا اس شخص کی زندگی اور تنظیم کے لئے ایک اہم موقع ہوتا ہے لیکن جب یہ معاملہ اس پارٹی کے صدر کی ذمہ داری سنبھالنے کا ہو جو142سال پرانی پارٹی ہو اور جس پارٹی کی قیادت میں ملک نے غلامی سے آزادی حاصل کرنے کا سفر طے کیا ہو تو یہ موقع اپنے آپ میں تاریخی نوعیت اختیار کر لیتا ہے۔
راہل گاندھی جس وقت اس تاریخی پارٹی کے صدر کی ذمہ داری سنبھالنے جا رہے ہیں وہ وقت اپنے آپ میں آسان نہیں ہے۔ وہ پارٹی جو آزادی کے بعد سے زیادہ تر وقت ملک میں بر سر اقتدار رہی ہو اور آ ج لوک سبھا میں اس کے ارکان کی تعداد اتنی کم ہو کہ تکنیکی اعتبار سے اس کو حزب اختلاف کا درجہ ملنے پر بھی سوال کھڑے ہوں، ملک کی چند گنی چنی ریاستوں میں اس کی حکومت بچی ہو اور ایک کے بعد ایک انتخابی شکست سے دو چار ہو رہی ہو اس پارٹی کی ایسے وقت میں قیادت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے وقت میں ہی کسی بھی قائد کا اصلی امتحان ہوتا ہے، اس کی قائدانہ صلاحیتوں کا پتہ ہی ان مشکل اوقات میں لگتا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ راہل اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے پارٹی اور ملک کو کتنا آگے لے جاتے ہیں مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہےکہ ان حالات میں پارٹی کی قیادت سنبھالنا کوئی کم ہمت کا کام نہیں ہے ۔
انڈین نیشنل کانگریس کے بارے میں ایک عام تاثر ہے کہ جیسے یہ پارٹی نہرو خاندان کی ملکیت ہو جبکہ تاریخ اس سے منکر ہے۔ 1885میں قائم ہوئی اس پارٹی کی جب تاریخ پر نظرڈالیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کن کن لوگوں نے کن کن حالات میں اس پارٹی کو اپنی خدمات دی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ آزادی کے بعد سے نہرو خاندان سے کانگریس کی صدارت سنبھالنے والے راہل گاندھی چوتھے شخص ہوں گے مگر ہمیں یہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اس خاندان کی ملک کے لئےکتنی قربانیاں رہی ہیں۔ یہ کہنا بھی بہت آسان ہے کہ راہل کا تعلق کیونکہ نہرو خاندان سے ہے اس لئے ان کے لئے پارٹی کا صدر بننا کوئی مشکل نہیں ہے مگر کسی بھی اس شخص کے لئے اس ذمہ داری کو قبول کرنا ہی ایک بڑا چیلنج ہے جس نے 14سال کی عمر میں اپنی دادی کو گولیوں سے چھلنی جسم کو دیکھا ہو اور 21سال کی عمر میں اپنے والد کی میت کو اگنی دی ہو۔ جس نے اس پارٹی اور ملک کی خدمت کرنے کے لئے گھر کے دو افراد کی جانوں کو جاتے دیکھا ہو اس کے لئے یہ ذمہ داری سنبھالنا کوئی آسان فیصلہ نہیں ہے۔ ان سب چیزوں کو اتنے قریب سے دیکھنے کے با وجود اگر راہل گاندھی پارٹی کی قیادت سنبھال رہے ہیں تو یہ قابل تعریف ہی نہیں بلکہ ایک بڑی ہمت کا فیصلہ ہے۔
جیسا ذکر کیا کہ یہ وقت بڑی چنوتیوں اور چیلنج سے بھرا ہوا ہے۔ ایک کے بعد ایک انتخابی شکست سے دو چار ہونے کے بعد پارٹی کارکنان میں زبردست مایوسی ہے۔ ادھر ایک نسل سے دوسری نسل میں اقتدار کا منتقل ہونا خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ بزرگ رہنما جن کا اقتدار اور پارٹی کے ہر بڑے فیصلے میں دخل رہا ہو ان کے لئے اس نئی صورتحال سے سمجھوتہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ اب فیصلہ وہ نہیں لیں گے بلکہ نئی نسل لےگی۔
ملک کے اقتدار کی باگ ڈور جس قیادت کے ہاتھ میں ہے وہ بہت جارحانہ مزاج رکھتی ہے اس لئے راہل جس وقت پارٹی کی قیادت سنبھال رہے ہیں اس وقت یہ تین بڑے چیلنج ان کے سامنے ہیں۔ کیسے وہ پارٹی کارکنان کو مایوسی سے باہر نکالیں گے اور ان میں نیا جوش پیدا کریں گے، کیسے وہ پارٹی کے بزرگ رہنماؤں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے اور کیسے وہ ملک کی جارحانہ قیادت سے لوہا لیں گے۔ راہل کی شخصیت کے تین اہم پہلو یہ ہیں کہ وہ ذمہ داری سے بھاگتے نہیں ہیں، دوسرا ان کے مزاج میں انکساری ہے اور تیسرا ان میں سیکھنے کا جذ بہ ہے۔
اس پہلو کو دیکھتے ہوئے کہ پارٹی میں تجربہ کار رہنماؤں کی ایک لمبی فہرست ہے اور مشکل دور میں پارٹی کی قیادت کرنا راہل کے خون میں شامل ہے اس کے مد نظر یہ تمام چیلنج بونے محسوس ہوتے ہیں۔ خود راہل نے جس بردباری اور روشن خیالی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے کانگریس کارکنان اور ملک کے عوام کو بہت امیدیں ہیں۔ راہل اب ملک اور پارٹی کارکنان کے لئے ایک امید کی کرن ہیں۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Dec 2017, 7:25 AM