راہل گاندھی کی نیائے یاترا نے ملکی سیاست میں نیا باب رقم کر دیا
راہل گاندھی نے اپنی یاترا کے دوران ملک کے اہم اہم مسائل اٹھائے اور موجودہ مرکزی حکومت کی خامیوں اور اس کی غلط پالیسیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی
کانگریس کے سابق صدر اور سینئر رہنما راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا نے ہندوستانی سیاست میں ایک نیا باب رقم کر دیا ہے۔ جب بھی آزاد ہندوستان میں سیاسی یاتراؤں کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کی یاترا کا ذکر تفصیل سے کیا جائے گا۔ مستقبل کا مؤرخ ان کی یاترا کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس یاترا نے بدعنوانی، اصول کشی، مفاد پرستی، غنڈہ گردی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس سے عبارت موجودہ سیاست کو پاک صاف بنانے اور سیاست میں ایک بار پھر اصولوں اور قدروں کی بالادستی قائم کرنے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ راہل گاندھی کی دوسری یاترا تھی جو 14 جنوری کو نسلی فساد سے بری طرح متاثر منی پور سے شروع ہوئی اور 17 مارچ کو ممبئی میں ختم ہوئی۔ اس سے قبل انھوں نے اپنی پہلی یاترا سات ستمبر 2022 کو تمل ناڈو کے کنیا کماری سے شروع کی تھی جو 30 جنوری 2023 کو سری نگر میں ختم ہوئی تھی۔
راہل گاندھی نے پہلی یاترا بالکل پیدل کی تھی۔ وہ 145دنوں میں 14 ریاستوں سے گزرے تھے۔ اس طرح انھوں نے 3570 کلومیٹر کا پیدل سفر طے کیا تھا۔ جبکہ دوسری یاترا میں وہ پندرہ ریاستوں کے 110 اضلاع سے گزرے۔ اس یاترا میں بھی وہ زیادہ تر پیدل ہی چلے البتہ انھوں نے کہیں کہیں بس سے بھی سفر کیا۔ اس یاترا میں انھوں نے 6713 کلومیٹر کا سفر مکمل کیا۔ انھوں نے پہلی یاترا کے دوران بارہ عام جلسوں سے خطاب کیا اور 100 سے زیادہ میٹنگیں اور 13 پریس کانفرنسیں کی تھیں۔ اس کے علاوہ چلتے چلتے تقریباً تین سو مذاکروں میں حصہ بھی لیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ ان کی یاتراؤں کے دوران مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی ملک کی سرکردہ شخصیات نے یاترا میں شریک ہو کر ان سے ملاقات کی اور ملک کو درپیش اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
ان کی یاترا کو عوام کی زبردست حمایت حاصل رہی۔ لوگ جوق در جوق یاترا میں شریک ہوتے رہے۔ بلکہ لوگوں کی بھیڑ اور جوش و خروش دیکھ کر اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے یاترا میں شامل ہونے کے خواہشمند افراد سے درخواستیں طلب کی گئیں اور ان کی چھان بین کے بعد ان کو یاترا میں شریک ہونے کی اجازت دی گئی۔ جبکہ ان کے عوامی جلسوں میں لوگوں کا جوش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ متعدد مقامات پر تو اتنے زیادہ لوگ پہنچ گئے کہ اتنے لوگ وزیر اعظم کی ریلیوں میں بھی نہیں آتے۔ حالانکہ وہاں لوگوں کو کرائے پر لایا جاتا ہے۔ جبکہ راہل کے جلسوں میں لوگ از خود پہنچتے ہیں۔ جس طرح لوگوں نے جگہ جگہ پر ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا اس سے ایک بات واضح ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ وہ ملک میں چلائی جانے والی نفرت کی سیاست سے متنفر ہو گئے ہیں۔ وہ سیاست میں ایمانداری اور اصولوں کی بالادستی چاہتے ہیں۔ انھوں نے یہ پیغام دے دیا کہ وہ مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کے خلاف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مین اسٹریم میڈیا ان کے جلسوں کو دکھانا شروع کر دے تو ملک کی سیاست کا نقشہ بدل جائے۔
راہل گاندھی نے اپنی یاترا کے دوران ملک کے اہم اہم مسائل اٹھائے اور موجودہ مرکزی حکومت کی خامیوں اور اس کی غلط پالیسیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے جس طرح پریس کانفرنسیں اور میٹنگیں کیں وہ وزیر اعظم نریند رمودی کی طرز سیاست پر ایک تازیانہ ہے۔ انھوں نے دس سال کی اپنی حکومت کے دوران ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی۔ البتہ اپنے پسندیدہ اینکروں کو بلا کر ان کو انٹرویو دیے۔ انٹرویو میں بھی جو سوالات پوچھے گئے وہ ان کے منظور کردہ تھے۔ جبکہ راہل گاندھی نے پریس کانفرنسوں میں ہر طرح کے سوالوں کا سامنا کیا اور پورے اعتماد کے ساتھ ان کا جواب دیا۔ ان یاتراؤں نے ان کے ناقدین کی زبانیں بند کر دیں جو انھیں پارٹ ٹائم سیاست داں کہتے تھے۔
انھوں نے بی جے پی کی اس ناپسندیدہ مہم کو بھی بے نقاب کر دیا جو ان کو بدنام کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرکے چلائی گئی تھی۔ انھوں نے اپنی سنجیدگی اور ملک کو درپیش مسائل اور ایشوز کے تعلق سے اپنی گراں قدر رائے سے یہ واضح کر دیا کہ ان کو کوئی معمولی سیاست داں نہ سمجھا جائے۔ ظاہر ہے وہ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس کا سیاست سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ ان کے نانا اور پرنانا جنگ آزادی کے جاں باز سپاہی تھے۔ ان کے نانا اور ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کو ایک جدید ہندوستان بنایا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ ان کی دادی اندرا گاندھی جہاں ملک کی وزیر اعظم رہیں وہیں انھوں نے پنڈت نہرو کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنی پوری زندگی لگا دی۔ بلکہ وہ ملک کے لیے شہید ہو گئیں۔
ان کے والد راجیو گاندھی نے اپنی کم مدتی حکومت میں ہندوستان میں کمپیوٹر کا انقلاب برپا کیا۔ آج بچے بچے کے ہاتھ میں جو کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ ہے وہ راجیو گاندھی کی دین ہے۔ انھوں نے بھی ملک کے لیے شہادت حاصل کی۔ راہل گاندھی کی والدہ سونیا گاندھی نے جس طرح ہندوستانی معاشرت اور تہذیب میں خود کو ڈھالا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ ایک عرصے تک کانگریس کی صدر اور دس سال تک مرکز میں حکمراں یو پی اے کی چیئرپرسن رہیں۔ انھوں نے جس طرح اپنی دانشمندی سے کانگریس کو طاقت بخشی اور دو بار اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا اس کی بھی مثال مشکل سے ملے گی۔ ایسے خاندان کے فرد اور اس سیاسی ماحول میں پرورش پانے والے راہل گاندھی کو اگر سیاست نہیں آئے گی تو کس کو آئے گی۔
راہل گاندھی نے صرف ہندوستان میں پریس کانفرنسیں نہیں کیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی پریس کانفرنسیں کرکے یہ بتا اور جتا دیا کہ وہ ایک بالغ نظر سیاست داں ہیں اور ان کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا وہ بالکل بے بنیاد تھا۔ ان کی یاترا سے اگر کسی کو سب سے زیادہ پریشانی تھی تو حکومت اور حکمراں جماعت کو تھی۔ ان کے ایک بے ضرر سے بیان کی پاداش میں ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور عدالت سے ان کے خلاف سزا کا فیصلہ سنایا گیا جس کی وجہ سے ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ ہو گئی۔ لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ان کے ساتھ انصاف کیا اور ان کی رکنیت بحال کی۔ انھیں بے گھر کرنے کا بھی ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا لیکن ان کی آواز بند نہیں کی جا سکی اور وہ حقیقی مسائل کو اٹھانے کی اپنی روش پر گامزن رہے۔
اس طرح راہل گاندھی نے بالخصوص اپنی یاتراؤں سے ہندوستانی سیاست کے افق پر ایک نیا سورج طلوع کر دیا ہے۔ ان کی یاتراؤں کی دھمک سے جو صدائے بازگشت پیدا ہو ئی یا ہو رہی ہے وہ تادیر سنی جاتی رہے گی۔ انھوں نے اپنی منفرد اور بے غرض سیاست سے یہ ثابت کر دیا کہ ملک کی خدمت اس طرح کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سیاست میں ایمانداری واپس آ جائے اور سیاست کی پرانی قدریں لوٹ آئیں تو اس وقت جس قسم کی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اس کا جنازہ نکل جائے گا اور راہل گاندھی جس طرح کی سیاست کی مثال پیش کر رہے ہیں اسی کو ہندوستانی عوام سر ماتھے سے لگائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔