پارلیمنٹ میں راہل گاندھی نے انوراگ ٹھاکر کے ذریعہ ’ذات‘ پر مبنی حملے کو انتہائی سلیقے سے سنبھالا... حمرا قریشی
آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکمراں دایاں بازو عوام کو درپیش سنگین مسائل پر بات کرنا پسند نہیں کرتا اور نہ ہی ان مسائل کو توجہ دیتا ہے
بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر نے پارلیمنٹ میں ’ذات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے جو ناگوار تبصرہ حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی کے بارے میں کیا، وہ بہت حیران کرنے والا اور فکر انگیز تھا۔ یقیناً انوراگ ٹھاکر کے اس عمل کو راہل گاندھی نے بہت سلیقے سے سنبھالا، بالکل ایک شریف آدمی کی طرح جو نہ صرف دانشوری کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ باوقار انداز بھی اختیار کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب خشونت سنگھ نے راہل گاندھی سے ہوئی ایک ملاقات کے فوراً بعد مجھ سے کہا تھا کہ وہ اس نوجوان شخص سے بے انتہا متاثر ہوئے۔ ایسا اس لیے کیونکہ وہ مخلص تھے اور زمینی حقائق سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ آج وہ حکمراں دائیں بازو سے نبرد آزما ہیں۔ جس طرح وہ دائیں بازو کو جواب دے رہے ہیں، وہ انتہائی موزوں ہیں۔ راہل گاندھی اس وقت ایسے شخص معلوم پڑ رہے ہیں جو موجودہ مشکل حالات سے ملک کو باہر نکالیں گے اور عوام کو بھی بدتر حالات سے بچائیں گے۔
آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکمراں دایاں بازو عوام کو درپیش سنگین مسائل پر بات کرنا پسند نہیں کرتا اور نہ ہی ان مسائل کو توجہ دیتا ہے۔ وہ تو بس ہندو اور مسلم طبقہ کے درمیان تفریق اور دونوں میں منافرت کو ہوا دینے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ انھیں تو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ ہم، یعنی عوام جی رہے ہیں یا مر رہے ہیں۔
نہیں، وہ مسائل کی سنجیدگی کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ بنیادی ڈھانچے کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش میں سیلاب اور دیگر آفات کو دعوت دی جا رہی ہے۔ ان آفات نے کئی زندگیاں ختم کر دی ہیں۔ وہ (حکمراں طبقہ) روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی بڑھتی قیمتوں پر غور نہیں کرتے۔ مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ باورچی خانہ کا بجٹ گڑبڑا گیا ہے۔ وہ بے روزگاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بات نہیں کرتے، وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم نہیں کرتے کہ بدعنوانی نے تعلیمی شعبہ کو خطرناک سطح تک تباہ کر دیا ہے۔ نتیجہ کار ہمارے سینکڑوں ہزاروں طلبا کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔ وہ بڑھتے جرائم کے واقعات پر بھی بات نہیں کرتے۔ فرقہ واریت کے درمیان نفرت انگیز جرائم اور لنچنگ و قتل عام جیسے واقعات پیش آ رہے ہیں، لیکن وہ پریشان نظر نہیں آتے۔ بلڈوزر سے گھر تباہ کیا جاتا ہے تو سینکڑوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ پریشان نظر نہیں آتے۔ عوام کچھ ایسے ہی مسائل میں مبتلا ہیں اور زندگی دشوار ہو رہی ہے۔
حالات دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ شدید بحران اور تباہی جیسی حالت میں بھی دائیں بازو کے لیڈران فرقہ واریت کو مزید بڑھانے کے ممکنہ طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آج ہندو-مسلم کشیدگی عام ہے، ہر طرف خلفشار جاری ہے۔ کوئی بھی چھوٹا یا بڑا مسئلہ سامنے آتا ہے تو فرقہ واریت کا زہر چھڑکا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہے۔ اس ملک میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آ رہے ہیں۔ آپ یہ فراموش نہیں کر سکتے کہ دونوں طبقات ایک دوسرے کے لیے احترام اور محبت کی ایک خاص سطح کے ساتھ زندگی گزارتے آئے ہیں۔ تقریباً 70 کی دہائی تک دونوں برادریوں میں اتحاد برقرار تھا۔ اس کے بعد ہی دونوں طبقات نے اختلافات کو محسوس کیا، پھر بھی مل جل کر ایک ساتھ رہتے دکھائی دیے۔
میرے والدین اور دادا-دادی کے بہت سے دوست جب ہمارے گھر آتے تھے تو وہ کھانا نہیں کھاتے تھے، لیکن وہ اس طرح سے انکار کرتے تھے کہ دل آزاری نہ ہو۔ وہ کہتے ’آج ہمارا ورَت (روزہ) ہے‘۔ ہمارے گھروں میں موجود نان ویج باورچی کے سامنے بھی اس طرح اپنائیت اور نرمی سے ٹالتے تھے کہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ اسے آپ حساسیت کہہ سکتے ہیں جو کافی حد تک برقرار تھی۔
آج دیکھا جائے تو ریسٹورینٹ مالکان اور پھل فروخت کرنے والوں پر مختلف بہانوں کے ساتھ حملہ کیا جا سکتا ہے، اور ایسی صورت میں عموماً ہم دور رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سینکڑوں اور ہزاروں فوڈ بلاگرز اور کھانے کے شوقین موجود ہیں، لیکن کوئی بھی ان دائیں بازو کے فرقہ وارانہ ہتھکنڈوں پر اپنی بے زاری کا اظہار نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور مجبور پھل فروشوں کو بھی دائیں بازو کے لوگ نہیں بخشتے۔
کیا کھانے اور پھلوں کے ذریعہ اس ہندو-مسلم منافرت کو پھیلایا جا سکتا ہے؟ مجھے صوفی حضرت نظام الدین کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جب انھوں نے کہا تھا کہ ’جب ہمارے خالق نے اپنا فضل جاری کرتے ہوئے ملکوں و برادریوں اور ذات پات و عقیدوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں، دھوپ اور درخت و پھل اور دریا و ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں کسی طرح کی تفریق نہیں، تو پھر ہم کمزور انسان کون ہوتے ہیں کسی کے درمیان تفریق کرنے والے‘۔
نگرانی کرنے والے وہ گروپ کہاں ہیں جو فرقہ پرست کرداروں کو آواز اٹھاتے ہی وہیں پر خاموش کر سکتے ہیں، تاکہ وہ اپنی فرقہ وارانہ سازشوں کو آگے نہ بڑھا سکیں۔ آج یہ فرقہ پرستی خوفناک ہوتی جا رہی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر کس طرح کے مباحثے ہوتے ہیں۔ جب ایک چیختا ہے تو دوسرا بھی جواب میں چیختا ہے۔ اب ٹیلی ویژن مباحثوں میں حقیقی مسائل اور عوام کے حقیقی خدشات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ صرف مٹھی بھر ہی آواز اٹھا رہے ہیں، چند لوگ ہیں جو دائیں بازو کی قوتوں کے ذریعہ پھیلائے گئے زہر کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔