راہل گاندھی کے خلاف پروپیگنڈا: بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی یا ناکامی کا اعتراف؟
راہل گاندھی کے خلاف چلائی جانے والی یہ مہمات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ان کے مخالفین میں اب راہل گاندھی کو شکست دینے کی طاقت نہیں ہے
افواہ سازی اور پروپیگنڈا ہمیشہ سے ہی دشمن کو کمزور کرنے کا ایک مؤثر اور خطرناک ہتھیار رہا ہے۔ قدیم زمانے میں جنگیں صرف تلواروں اور تیروں سے نہیں، بلکہ ذہنی و نفسیاتی طور پر بھی لڑی جاتی تھیں۔ افواہوں کے ذریعے دشمن کو بدنام کرنا اور اس کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا ایک کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی رہی ہے۔ تاریخ اس طرح کی چالوں سے بھری پڑی ہے جہاں افواہوں نے بادشاہتیں گرا دیں اور جنگوں کا رخ موڑ دیا۔
آج کے جدید دور میں جب معلومات کا سیلاب برقی لہروں پر بہتا ہے، افواہ سازی اور پروپیگنڈا کی یہ سازشی حکمت عملی بھی مزید تیز اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔ پہلے جن افواہوں کو ایک کان سے دوسرے کان تک پہنچنے میں کافی عرصہ درکار ہوتا تھا، وہ اب پلک جھپکتے ہی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پھیل جاتی ہیں اور ان کا اثر بھی کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ لیکن اس افواہ و پروپیگنڈا کی سازش کے ساتھ عموماً ایک قباحت ہوا کرتی ہے، اور وہ یہ کہ یہ اس بات کا اعتراف بھی ہوتا ہے کہ سازش کرنے والے میں مخالف سے مقابلے کی سکت نہیں ہے اور وہ بری طرح بدحواسی کا شکار ہو چکا ہے۔
اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے ساتھ آج کل یہی ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں راہل گاندھی کے ’چکرویوہ‘ والے مشہور بیان کے بعد ای ڈی کے ذریعے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ وار ناکام ہونے کے بعد یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ میں انہیں پچھلی صف میں بٹھا کر نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی۔ جب اس کا بھی راہل گاندھی پر کوئی اثر نہیں ہوا تو قومی میڈیا کے ایک چینل سے لے کر سرکاری ٹیلی ویژن ’دور درشن‘ تک ایک بنگلہ دیشی شخص کے ذریعے راہل گاندھی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سرکاری چینل پر راہل گاندھی کے کردار کو بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
یہاں ہم معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان واقعات کے تناظر میں اگر کوئی یہ تصور کرتا ہے کہ ان سے بی جے پی کا بھلا کیا تعلق ہے؟ تو یہ اس کی سادگی ہوگی۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد اگر وہ بی جے پی، خاص طور پر پی ایم مودی پر راہل گاندھی کے اٹھائے گئے سوالات پر ایک نظر ڈال لے، تو ان کڑیوں کو جوڑنے میں اسے ذرا بھی دشواری نہیں ہوگی۔ پارلیمنٹ میں راہل گاندھی نے 6 لوگوں کے چکرویوہ کا ذکر کیا تھا، جس کے فوراً بعد انہوں نے ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا کہ ای ڈی ان کے یہاں چھاپے ماری کی تیاری کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ای ڈی کی ممکنہ کارروائی کی معلومات راہل گاندھی کو کیسے حاصل ہوئیں؟ ظاہر ہے کہ یہ کسی ذرائع سے ان تک پہنچائی گئی ہوگی اور اس کا مقصد انہیں خوفزدہ کرنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
ای ڈی کی ممکنہ کارروائی کی خبر سے جب راہل گاندھی کے یہاں خوف کا کوئی شائبہ نظر نہیں آیا، تو لال قلعہ میں ان کی توہین کی گئی۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے راہل گاندھی کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس اہم قومی تقریب میں صفِ اول میں موجود ہوتے، مگر انہیں نظرانداز کیا گیا۔ اس معاملے میں سب سے دلچسپ بات وزارت دفاع کی جانب سے دی گئی توضیح رہی، جس نے خود کئی سوال کھڑے کر دیے۔ کیا وزیر دفاع کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آئی ہوگی کہ ان کی جانب سے پیش کی جانے والی وضاحت کسی کے گلے نہیں اترے گی؟ تو پھر انہوں نے اولمپک کھلاڑیوں کی تکریم کا حوالہ کیوں دیا؟ اس کا واضح مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ حکومت چاہتی تھی کہ لوگوں تک یہ بات پہنچے کہ حکومت راہل گاندھی کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
لیکن حکومت یہاں یہ بھول گئی کہ جو شخص عزت و توہین کے مقام سے بلند ہو چکا ہو، جو لوگوں میں خوفزدہ نہ ہونے کا پیغام دیتا پھرتا ہو، جو لوگوں سے محبت کو عام کرنے کی بات کرتا ہو، وہ بھلا اس قدر چھوٹی باتوں سے کیا متاثر ہوگا۔ سو وہی ہوا کہ راہل گاندھی نے اس کی کوئی پروا نہیں کی کہ انہیں پانچویں صف میں پیچھے کی جانب بٹھایا گیا۔ جب اس ہتھیار کا بھی راہل گاندھی پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو پھر لایا گیا بین الاقوامی سطح پر ان کی کردار کشی کرنے والا ہتھیار۔ اس کے تحت صلاح الدین شعیب چودھری نامی ایک بنگلہ دیشی جرنلسٹ نے ایک مضمون لکھا، جس میں نہایت بھونڈے طریقے سے راہل گاندھی کی کردار کشی کی کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ اس میں راہل گاندھی کا بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف ہوئی بغاوت سے رابطہ جوڑا گیا۔
اس مضمون کے سامنے آنے کے بعد پوری بی جے پی اس کو شیئر کرنے اور اس کو موضوع بحث بنانے میں جٹ گئی۔ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈرز اس کو اپنے ’ایکس‘ ہینڈل سے شیئر کر رہے ہیں۔ اس مضمون کو بی جے پی کے لوگوں کے ذریعے شیئر کرنے کی ہڑبڑاہٹ اور مستعدی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس کے ذریعے وہ راہل گاندھی کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ایک غیر ملکی صحافی کے ذریعے لکھے گئے مضمون کی مدد لے رہے ہیں۔ اس کو دیکھ کر یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مضمون بھی بی جے پی کے لوگوں نے ہی لکھوایا ہو؟
راہل گاندھی کے خلاف چلائی جانے والی یہ مہمات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ان کے مخالفین میں اب راہل گاندھی کو شکست دینے کی طاقت نہیں ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ جس راہل گاندھی کو ایک بودے شخص کے طور پر پیش کرنے میں انہوں نے ہزاروں کروڑ روپے صرف کیے، وہ شہرت و مقبولیت میں وزیر اعظم مودی سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے حامیوں کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح راہل گاندھی کو سیاسی میدان سے باہر کر دیا جائے۔ ان کے کردار پر حملے کے ساتھ ان کی شہریت کے خلاف کی اٹھایا جانے والا تنازعہ اس بات کا ثبوت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔