گرمیت رام رحیم کا اصل توڑ تعلیم کے فروغ اور بے روزگاری دور کرنے میں ہے

ان خود ساختہ مذہبی لوگوں کے لیے یہ دکان بہت اچھی ہے کیونکہ اس میں نہ کسی تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ اس کے لیے گاہکوں کی کوئی کمی ہے

گرمیت رام رحیم، تصویر آئی اے این ایس
گرمیت رام رحیم، تصویر آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

ڈیرا سچا سودا کے سربراہ سزا یافتہ گرمیت رام رحیم کل ایک مرتبہ پھر جیل سے باہر ہیں۔ الزام ہے کہ ان کو 20 دن کی پیرول پر روہتک جیل سے اس لیے باہر آنے دیا گیا تاکہ ان کی قربتیں برسراقتدار جماعت کے ساتھ نظر آئیں اور ان کے حامی ہریانہ انتخابات میں برسراقتدار جماعت کے حق میں اپنی رائے دہی کا استعمال کریں۔ ویسے تو یہ معاملہ ریاستی انتخابی کمیشن کو دیکھنا تھا لیکن اس نے بھی کچھ شرائط کے ساتھ ہریانہ حکومت کو اجازت دے دی کہ وہ گرمیت رام رحیم کو جیل سے رہا کر سکتی ہے۔ جو اہم شرائط پیرول کے لئے رکھی گئیں، ان میں گرمیت رام رحیم پر ریاست ہریانہ میں آنے پر پابندی عائد کرنا اور کسی بھی طرح کی انتخابی سرگرمی میں حصہ نہ لینا شامل ہیں۔

ریاستی انتخابی کمیشن نے اپنے طور پر کچھ پابندیاں ضرور عائد کیں لیکن ان کی رہائی ہی اپنے آپ واضح پیغام تھا کہ گرمیت رام رحیم کس پارٹی کے حق میں ہیں، پھر چاہے وہ ہریانہ آئیں یا نہ آئیں یا کسی انتخابی سرگرمی میں حصہ لیں یا نہ لیں۔ گرمیت رام رحیم پر ایک صحافی کے قتل کا الزام تھا اور عصمت دری کے معاملے میں وہ سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کی رہائی سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ ہریانہ اسمبلی انتخابات میں برسر اقتدار جماعت پھر سے اقتدار میں واپسی کے لیے ہر وہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ وہ ہر اس شخص کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے جس کے پاس تھوڑے بہت ووٹ ہیں، چاہے اس پر کسی بھی طرح کے الزامات ہوں۔


ہریانہ میں اس مرتبہ انتخابات میں عوام برسراقتدار جماعت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہے، اسی لیے برسراقتدار جماعت چاہے رام رحیم کی حمایت ہو، کسی اتحاد کی حمایت ہو یا پھر آزاد امیدواروں کی حمایت ہو، وہ اس کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے۔ گرمیت رام رحیم کو پیرول دیے جانے کے وقت بھی لکھا جا سکتا تھا لیکن ایک سزایافتہ کو ہیرو بنانے سے بچنا مراد تھا۔

ہندوستان ایک مذہب پسند ملک ہے اور جو جتنا کمزور اور کم پڑھا لکھا ہوگا وہ ان مذہبی لوگوں کی اتنی ہی اچھی خوراک ہوگا۔ ان خود ساختہ مذہبی لوگوں کے لیے یہ دکان بہت اچھی ہے کیونکہ اس میں نہ کسی تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ اس کے لیے گاہکوں کی کوئی کمی ہے۔ دو طرح کے خود ساختہ مذہبی لوگ ہوتے ہیں، ایک کی غذا غریبی اور تعلیم کی کمی ہے اور دوسرے کی غذا انگریزی بولنے والا اور بڑا دولت مند۔ غریب کو لگتا ہے کہ مذہبی راستے پر چل کر ہی امیر بنا جا سکتا ہے اور انگریزی بولنے والے دولت مند کو لگتا ہے کہ ان خود ساختہ مذہبی لوگوں کی انگلی پکڑ کر ہی زندگی کا راستہ طے کیا جا سکتا ہے۔

دونوں ہی معاملات میں ان مذہبی لوگوں کو اپنا دائرہ بڑھانے کے لیے خواتین کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کے ذریعے ہی گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ جب یہ خواتین ان کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں تو ان مذہبی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان خواتین کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں۔ اس سب سے لڑنا مشکل ہے لیکن سیاست دان چاہیں تو ان غریب اور تعلیم کی کمی والے لوگوں کو گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔ اگر سیاست دان اسے اپنا مقصد بنا لیں اور غریبوں اور جاہل لوگوں کو اس جہنم سے بچا لیں تو پھر خود بخود انگریزی بولنے والوں کو پھنسانے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔


گرمیت رام رحیم کی وجہ سے اگر سیاست دان اپنا نظریہ تبدیل کر لیتے ہیں تو یہ گرمیت رام رحیم جیسے خود ساختہ مذہبی لوگوں کی زبردست حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس میں کسی بھی پارٹی کی ہریانہ میں حکومت آئے، اسے صرف ایسے لوگوں کے خلاف سختی کرنی چاہیے اور تعلیم و روزگار پر دھیان دینا چاہیے تاکہ ان لوگوں کو چارہ ملنا بند ہو جائے۔ تعلیم اور بے روزگاری ہی ان ڈیروں اور نشے کے کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہے، اس لیے ہر سیاسی پارٹی کو تعلیم کے فروغ اور بے روزگاری دور کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لینا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔