موجودہ دور اور اس کے تلخ حقائق… حمرا قریشی

ایک ہندوستانی مسلمان کے طور پر اپنے ملک میں جاری فرقہ واریت سے میں بہت خوفزدہ اور پریشان ہوں، میں خود سے پوچھتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی ماحول نے مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا ہے؟

<div class="paragraphs"><p>ویڈیو گریب</p></div>

ویڈیو گریب

user

حمرا قریشی

ہندو اور مسلم طبقہ کے درمیان منافرت و اختلافات پیدا کرنے کی کوششیں لگاتار ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں تازہ ترین حکم نامہ یہ تھا کہ کانوڑیا کے راستہ میں موجود کھانے پینے کے اسٹال، دکانوں اور ڈھابوں کے مالکان اپنا نام ظاہر کرنے کے لیے ’نیم پلیٹ‘ لگائیں۔ عدالت عظمیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے مداخلت کرتے ہوئے حکم نامہ کو منسوخ کرنے سے متعلق ہدایت جاری کر دی۔ عدالت کا یہ فیصلہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور ریہڑی چلانے والوں کے لیے راحت کی سانس تھی، کیونکہ ایسے وقت میں جب روزہ مرہ کی بنیادی چیزیں انتہائی مہنگی ہو گئی ہیں، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور و غریب طبقہ زندہ رہنے کے لیے تگ و دو کرنے پر مجبور ہے۔

آج بی جے پی حکمراں والی شمال ہند کی ریاستوں، مثلاً اتر پردیش، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش وغیرہ میں سماجی، معاشی و تعلیمی سطح پر اقلیتی برادری کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ کئی مقامات پر گھروں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے، یا پھر لنچنگ اور قتل و غارت گری ہوتی ہے جس سے فرقہ واریت کا زہر پھیلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے حالات پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملے تھے۔

ایک ہندوستانی مسلمان کے طور پر اپنے ملک میں جاری فرقہ واریت سے میں بہت خوفزدہ اور پریشان ہوں۔ میں خود سے یہ سوال کرتی رہتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی ماحول نے مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا ہے؟ کیوں میری شناخت، میری بقا اور میرے وجود کو خطرات لاحق ہیں؟ کیوں پرانی یادیں مجھے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور پھر اتر پردیش میں گزارے گئے بچپن و جوانی کے دور کی یاد دلاتی ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ میرے والدین یا دادا-دادی نے ہمیں ابھی کے حالات کے لیے تیار نہیں کیا، یہ وقت جب ایک بھی دن میں فرقہ وارانہ حملوں کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتی اور ایک بھی دن میری نفسیات کی عصمت تار تار کیے بغیر نہیں گزرتا؟ قائدین کو یہ احساس کیوں نہیں ہوا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہندوتوا بریگیڈ خوف و دہشت پھیلاتے ہوئے گولیاں چلائیں گے؟ حتیٰ کہ مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں پناہ گزیں بنانے کی دھمکی دیتے پھریں گے!

مسلم طبقہ اس وقت خوف کے ماحول میں ہے اور دن بہ دن اس خوف میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ میں اس ماحول کو اقلیتی آبادی کی روح کا قتل عام قرار دوں گی۔ مسلمانوں کی شناخت پر ہی داغ لگا دیا گیا ہے، زندگی میں مساوات گزرے زمانے کی بات ہو گئی ہے۔ غیر سیاسی مسلمان تو ظلم کے خوف سے کھل کر اپنی ناراضگی یا اختلاف کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ ایسا کرنے پر انھیں ملک دشمن نہیں تو دہشت گرد ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر انھیں تصادم میں مارا جا سکتا ہے، یا پھر قسمت میں جہنم کی زندگی لکھی جا سکتی ہے۔


مسلمانوں کو لنچنگ کا شکار بنایا جاتا ہے اور ان پر حملہ کیا جاتا ہے، آج بڑی تعداد میں مسلمانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ مسلم بچوں کو اسکولوں میں غنڈہ گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بہت سے مسلمانوں کو ہندوتوا غنڈوں کے ذریعہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ نتیجہ کار بڑی تعداد میں مسلم خاندان یہودی بستیوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کئی مسلم افراد جیلوں میں قید پڑے ہوئے ہیں، اور قید کیے جانے والے مسلم مردوں کا فیصد ان کی آبادی کے تناسب میں دیکھا جائے تو بہت زیادہ ہے۔

مشینری کی بات کی جائے تو یہ آج ہر دوسرے مسلم کو شبہ کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ رائٹ وِنگ کے لوگ مسلمانوں پر عجیب و غریب طرح کے ممکنہ خطرات کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ معصوم مسلمانوں کو غدار اور دہشت گرد بتایا جاتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ سب سے بڑی اقلیتی برادری اس وقت ممکنہ طور پر بدترین بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ ہندوستانی مسلمان کو دیکھا جائے تو کسی بھی شعبہ میں وہ آج سب سے ذیلی سطح پر دکھائی دے رہا ہے۔ ایک نوجوان لڑکی، یا پھر ایک نوجوان کے طور پر میں یہ تصور نہیں کر سکتی تھی کہ ایک دن آئے گا جب مجھے (ایک ہندوستانی مسلمان) دو مرتبہ سوچنا پڑے گا کہ پکانا کیا ہے؟ یا پھر مجھے کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے یا کیا بات کرنی ہے!

آج یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ کوئی بھی آزادانہ طور پر تحقیقات کی روش اختیار کرنا گوارا نہیں کرتا۔ مسلمانوں کے خلاف انتہائی متعصبانہ پروپیگنڈہ چلایا جا رہا ہے اور لوگوں کو ایسی خوراک دی جا رہی ہے جو بے حد زہرناک ہے۔ کیا منصوبہ بنانے والے اور منتظمین ان آفات کو نہیں دیکھ رہے! ہماری جمہوریت میں آخر بچا کیا ہے! اگر میں کچھ غلط کہہ رہی ہوں تو میری اصلاح کیجیے۔ ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی ایک دن آنے والا ہے جب ہم میں سے ہر ایک کو شناختی کارڈ یا پلے کارڈ اٹھانا پڑے گا جس میں لکھا ہوگا ’میں ایک مسلمان/دلت/عیسائی/سکھ/قبائلی/لیفٹسٹ/مارکسسٹ/ٹریڈ یونینسٹ ہوں... لیکن دہشت گرد نہیں ہوں!‘

یا پھر اس بنیادی تعارفی نوٹ کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ’ہندو راشٹر میں زندہ رہنا ہوگا، جہاں پرچارکوں اور مہاپرچارکوں کے ایک گروپ کی حکومت ہے۔ یہ سانس چلتی رہے گی، جب تک مجھے سیاسی مافیا کے ہاتھوں قتل نہ کر دیا جائے۔ اس کے لیے کوئی بھی بہانہ ہو سکتا ہے، مثلاً گائے کا اسمگلر، تین طلاق دینے یا لینے والا، اذان دینے والا، نماز کے لیے مسجد جانے والا۔‘

یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ سرکاری مشینری ذلت والے ان حالات سے استفادہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے! خرافات، غلط فہمیوں، پروپیگنڈوں اور سراسر جھوٹ کے پھیلاؤ پر ظاہری روک کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی! یہ خطرناک ہی نہیں بلکہ انتہائی توہین آمیز بھی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب راتوں رات ہونے والا عمل نہیں ہے، بلکہ یہ تو کئی سالوں سے جاری ہے۔ دراصل سیاسی مافیا کی پشت پناہی کے سبب اب یہ کام تیزی سے ہو رہا ہے۔


بالی ووڈ فلم اسٹار فاروق شیخ نے مجھے ایک انٹرویو کے دوران بڑی اور چھوٹی اسکرین پر مسلم کرداروں کو دیے جانے والے منفی رجحان سے متعلق تفصیل سے بتایا تھا۔ ایک سینئر بیوروکریٹ پرویز دیوان (ایک غیر مسلم۔ یہاں موجودہ دور کے زوال کا تصور کریں جب مجھے ذیلی طور پر یہ ظاہر کرنا پڑ رہا ہے کہ نام سے کسی طرح کی غلط فہمی نہ پیدا ہو، اور لوگ سمجھیں کہ جو نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے اس میں مذہب رخنہ انداز نہیں ہوا) نے بالی ووڈ فلموں اور ٹیلی ویژن سیریلز پر ایک انتہائی اہم تحقیق کی تھی۔ اس کے نتائج تلخ حقائق پر مرکوز ہیں، اس میں بتایا گیا ہے کہ عیسائیوں کو ایک خاص منفی روشنی میں دکھایا گیا ہے جس میں ان کے مرد نشے میں ہیں اور خواتین چھوٹی اسکرٹس پہنے ہوئی ہیں۔ دلتوں اور قبائلیوں کو ایک الگ بھروسہ والے انداز میں دکھایا گیا ہے، اور مسلمانوں کو منفی کرداروں میں پیش کیا گیا ہے، مثلاً ویلن یا دہشت گردانہ کردار۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یکطرفہ کرداروں کو دیکھنے سے ناظرین کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

رائٹ وِنگ کی طرف سے کی جا رہی زہر آلود کوششیں مہلک معلوم پڑتی ہیں۔ تقسیم اور فرقہ وارانہ خطوط کے ذریعہ بڑے پیمانے پر نفسیات کو اثر انداز کیا جا رہا ہے، خرافات اور غلط فہمیاں گردش کر رہی ہیں۔ امتیازی سلوک، تعصبات اور دوہرے معیار نمایاں طور پر سبھی کے سامنے ہیں۔ یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ مسلمانوں کی حالت پر قائم کردہ کمیشنوں و کمیٹیوں کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ یہاں روایتی اور اشرافیہ طبقہ کی سکڑن یا آہستہ آہستہ ان کے غائب ہونے کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ رائٹ وِنگ جیسے جیسے اپنے بازو پھیلا رہا ہے اور روز مرہ کی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے، ویسے ویسے اخلاقیات اور سیکولر تانا بانا تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ جملہ سخت ضرور لگ سکتا ہے، لیکن یہ اس تاریک دور کی تلخ حقیقت ہے جس میں ہم زندہ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔