مہاراشٹر میں کانگریس کی واپسی کے امکانات و عوامل... اعظم شہاب

کانگریس نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کی تیاری یوں تو لوک سبھا انتخابات کے بعد ہی شروع کر دی تھی مگر مہم کا آغاز 9 اگست سے کیا۔ کانگریس انچارج کی قیادت میں کانگریس لیڈران مہاراشٹر بھر کا دورہ کر رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

اعظم شہاب

لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی ’مودی حکومت‘ کو ’این ڈی اے حکومت‘ میں تبدیل کرنے میں مہاراشٹر کا اہم کردار رہا ہے۔ مہاراشٹر میں لوک سبھا کے نتائج میں اگر کسی نے سب سے زیادہ حیران کیا تھا تو وہ کانگریس پارٹی تھی۔ اس نے 17 سیٹوں پر مقابلہ کیا جس میں سے 13 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ یہی کانگریس تھی جو 2014 میں 2 سیٹ اور 2019 میں محض ایک سیٹ تک سمٹ گئی تھی۔ اب آئندہ 3 ماہ میں ریاست میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں، ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس اسمبلی انتخابات میں بھی لوک سبھا کی طرح شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے گی اور اس کے امکانات و عوامل کیا ہیں؟

مہاراشٹر میں کانگریس مہاوکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کا حصہ ہے۔ اس ایم وی اے میں شرد پوار کی این سی پی اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا شامل ہے لیکن اگر سچ پوچھئے تو کانگریس ہی ایم وی اے کی قائد بھی ہے، کیونکہ ارکان پارلیمنٹ و ارکان اسمبلی کی تعداد کے لحاظ سے کانگریس ایم وی اے کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ فی الوقت کانگریس کے پاس 37 ارکان اسمبلی اور 13+1 ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ شرد پوار کی این سی پی کے پاس 10 ارکان اسمبلی اور 8 ارکان پارلیمنٹ ہیں جبکہ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کے پاس یہ تعداد 15اور 9 ہے۔ اس لیے آنے والے اسمبلی انتخابات میں اگر کسی پارٹی سے سب سے زیادہ یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ بی جے پی کی قیادت والی مہایوتی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرے گی، تو وہ کانگریس ہے۔


کانگریس نے اسمبلی انتخابات کی تیاریاں یوں تو لوک سبھا انتخابات کے فوراً بعد ہی شروع کر دی تھی، مگر انتخابی مہم کی شروعات 9 اگست سے کی ہے۔ مہاراشٹر کانگریس کے انچارج رمیش چنیتھلا کی قیادت میں کانگریس لیڈران مہاراشٹر بھر کا دورہ کر رہے ہیں۔ اسی موقع پر لاتور میں پارٹی کے تمام لیڈران نے مل کر ایک ساتھ ’شنکھ‘ (ناقوش) بجا کر علامتی طور پر انتخابی مہم کا آغاز کر دیا۔ اس کے علاوہ 20 اگست کو لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی بھی مہاراشٹر کا دورہ کرنے والے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ممبئی کا ان کا دورہ انتخابی مہم کے آغاز کے لیے ہے، جس کا واضح مطلب یہ نکالا جا رہا ہے کہ کانگریس نے پوری طاقت کے ساتھ اسمبلی انتخاب میں اترنے کی تیاری کر لی ہے۔

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ بھارت جوڑو نیائے یاترا کے اختتامی جلسہ سے راہل گاندھی نے ممبئی میں ہی خطاب کیا تھا۔ ممبئی کے تاریخی شیواجی میدان میں راہل گاندھی کو سننے کے لیے ریاست بھر سے لوگ امنڈ پڑے تھے۔ اس کے علاوہ اس جلسے میں انڈیا الائنس کے تمام اہم لیڈران بھی شریک ہوئے تھے اور اسی جلسے سے لوک سبھا انتخابات کا بگل بھی بجا دیا گیا تھا۔ اس جلسے کے بعد انڈیا الائنس نے جو کامیابی حاصل کی اس نے بی جے پی کی نہ صرف ہوا اکھاڑ دی بلکہ نریندر مودی کی مقبولیت پر سوالیہ نشان بھی لگا دیا۔ کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ مہایوتی کی پارٹیاں جو اپنے ہر پوسٹر و بینر پر نریندر مودی کی تصویر سب سے بڑی لگوایا کرتی تھیں، لوک سبھا نتائج کے بعد انہیں ایک کونے میں ڈھکیل دیا؟


سچ پوچھئے تو راہل گاندھی کی جانفشانی نے مہاراشٹر میں کانگریس کو نئی زندگی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وگرنہ لوک سبھا انتخابات سے قبل مہاراشٹر میں کانگریس کی سیاست کو ختم سمجھا جا رہا تھا۔ یہی وہ ریاست رہی ہے جس کے قیام کے بعد 1995 تا 1999 چھوڑ کر 2014 تک کانگریس سیاست کے مرکز میں رہی۔ اس دوران کانگریس نہ صرف ہر حکومت میں شامل رہی بلکہ کانگریس کا ہی وزیر اعلیٰ بنتا رہا۔ 2014 میں ملک بھر میں جب کانگریس کا زوال ہوا تو مہاراشٹر بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ کانگریس کے کئی قد آور لیڈر پارٹی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہو گئے، جس نے کانگریس کو سخت نقصان پہنچایا۔ مگر راہل گاندھی کی دو یاتراؤں نے حالات کو کچھ یوں تبدیل کیا کہ جس پارٹی کو لوگ چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، وہ آج دوبارہ واپسی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ یعنی جولائی میں ایک مراٹھی اخبار ’سکال‘ نے ایک سروے کیا تھا جس میں تقریباً 84,000 لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ اس سروے میں 48.6 فیصد لوگوں نے کہا تھا کہ ریاست میں ایک بار پھر ایم وی اے کی حکومت بنے گی۔ جب کہ 33.1 فیصد لوگ بی جے پی، شندے کی شیوسینا اور اجیت پوار کی این سی پی کے اتحاد یعنی مہایوتی کے حق میں نظر آئے تھے۔ لوک سبھا انتخابات میں ایم وی اے کو ملنے والا ووٹ فیصد 43.71 یعنی 44 فیصد تھا۔ اس میں بغیر کسی مہم کے اگر 2 ماہ میں 2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے تو انتخابی مہم کی شروعات کے بعد کس قدر اضافہ ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔


اس کے علاوہ کئی ایسے فیکٹرس ہیں جو ایم وی اے خاص طور سے کانگریس کے حق میں عوامی رائے عامہ کو مزید ہموار کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا فیکٹر مراٹھا ریزرویشن کا ہے، جس پر کانگریس کے موقف نے مراٹھوں کو اس کی جانب راغب کر دیا ہے۔ ریاست کے سیاسی حالات اور بیروزگاری، مہنگائی و ریاست کی سرمایہ کاری کے گجرات منتقل ہونے جیسے عوامل کے نتیجے میں اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اسمبلی انتخابات میں عوام کا کیا رجحان ہوگا۔ ایک ایسی ریاست جہاں کانگریس ایک پارلیمانی سیٹ تک سمٹ گئی تھی، وہاں پر کانگریس و اس کی اتحادی پارٹیوں کے حق میں 48 فیصد سے زائد لوگوں کا راغب ہونا ایک انقلاب ہی ہو سکتا ہے، جس کا سہرا راہل گاندھی کے سر بندھتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔