ایکلویہ تو ہمیشہ ہی چھلا گیا ہے
اب کیا سوچنا ایکلویہ تو دروناچاریہ کو اپنا انگوٹھا دے ہی چکا ہے اور اب وہ تیر اندازی کے لائق نہیں رہا ہے، ایکلویہ تو ہمیشہ ہی چھلا گیا ہے۔
شمالی ہندوستان میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو مہابھارت کی کہانی سے واقف نہ ہوں یا انہوں نے اس کا نام نہیں سنا ہو۔ ارجن کا مہابھارت میں جہاں مرکزی کردار ہے، وہیں اس میں ایک کردار ایکلویہ کا بھی ہے۔ دراصل ایکلویہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق چھوٹی ذات سے تھا اور اس کے والد شکاری تھے، شکار کے لئے اس نے بھی تیر اندازی سیکھ لی تھی۔ اس نے اس وقت کے شاہی گھرانے کے استاد دروناچاریہ سے ملاقات کر کے ان کو تیر اندازی میں اپنا استاد بنانے کی خواہش ظاہر کی، چونکہ شاہی گھرانے کے استاد کو عام آدمی کو کسی بھی طرح کی تعلیم دینے کی اجازات نہیں تھی اس لئے وہ ان کو اپنا استاد نہیں بنا سکا۔ کسی بھی فن کے لئے استاد ہونا لازمی تسلیم کیا جاتا تھا، اس لئے ایکلویہ نے دروناچاریہ کا مجسمہ قائم کر کے اور اس مجسمہ کو اپنا استاد مان کر تیر اندازی سیکھنی شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس فن کا ماہر ہو گیا۔ جب یہ بات ارجن اور دروناچاریہ کو پتہ لگی تو وہ ایکلویہ سے ملنے گئے۔ ایکلویہ سے ملنے کے بعد دروناچاریہ کو پتہ لگا کہ ایکلویہ ارجن سے بھی اچھا تیر انداز ہے۔ یہ بات دروناچاریہ اور ارجن دونوں کو بری لگی۔ اس زمانہ میں یہ چلن تھا کہ اگر کوئی کسی کو اپنا استاد مانتا ہے تو اس کو ’گرو دکشنا ‘ دینی پڑتی ہے۔ دروناچاریہ نے ایکلویہ سے کہا کہ اگر وہ ان کو اپنا استاد تسلیم کرتا ہے تو اس کو ’گرو دکشنا‘ دینی ہوگی۔ ایکلویہ گرو دکشنا دینے کے لئے فوراً تیار ہو گیا اس کے بعد دروناچاریہ نے جو ’گرو دکشنا‘ مانگی وہ ایسی تھی کہ اس نے ایکلویہ کو تیر اندازی کی نہیں بلکہ چھلے جانے کی پہچان دی۔ دروناچاریہ نے ایکلویہ سے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا گرو دکشنا میں مانگ لیا اور تیر اندازی کے لئے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا ہی سب کچھ ہے، اس واقعہ کے بعد سے یہ مشہور ہو گیا کہ ایکلویہ تو ہمیشہ ہی چھلا گیا۔ ایکلویہ کو غریب اور کمزور سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی غریب اور کمزور ہمیشہ چھلا گیا ہے۔
دہلی اسمبلی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر اروند کیجریوال نے تاریخ رقم کرتے ہوئے 70 میں سے 62 سیٹیں حاصل کیں اور اب وہ دہلی کے تیسری مرتبہ وزیر اعلی بن گئے ہیں۔ ان کی اس تاریخی جیت میں دہلی کے غریب، اقلیتیں اور بی جے پی مخالف لوگوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پوری انتخابی تشہیر کے دوران جہاں بی جے پی انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتی رہی، وہیں کیجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی نے کچھ نرم ہندوتوا پر عمل کرتے ہوئے اقلیتوں اور سیکولر قووتوں سے دوری بنائے رکھی۔ عام آدمی پارٹی نے انتخابی تشہیر کے دوران نہ تو شاین باغ کا کوئی ذکر کیا اور نہ ہی جے این یو کے طلباء پر ہونے والے حملہ کی کوئی مذمت کی، یا کھل کر اس کی مخالفت کی۔ یہ تمام قووتیں پھر بھی ایکلویہ کی طرح شاہی گھرانے کے دروناچاریہ کو اپنا استاد مانتے رہے اور استاد کی ہر شرط مانتے رہے۔
دہلی کے انتخابات میں غریب، اقلیت اور سیکولر خیال کے لوگ جن کو اس سارے معاملہ میں ایکلویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ نتیجوں کے بعد وہ ارجن سے زیادہ ماہر اور کامیاب ثابت ہوئے لیکن اب وہ کافی پریشان نظر آ رہے ہیں۔ ان سب قووتوں یعنی انتخابات کے ایکلویہ کو امید تھی کہ جیت کے بعد دروناچاریہ ان کے دل کی بات کریں گے، جیتنے کے بعد وہ شاہین باغ کی بات کریں گے، جے این یو طلباء کی حمایت کا بھی اعلان کریں گے اور غریبوں کی بات بھی کریں گے لیکن دروناچاریہ نے تو جیتنے کے فوراً بعد شاہی گھرانے کے لوگوں کی نقل کرنی شروع کر دی۔ شاہی گھرانے کے لوگ جیسے مندر میں آرتی اتارنے اور پوجا پاٹھ کو ٹی وی پر دکھانے کو اپنی سیاست کا ضروری حصہ سمجھتے ہیں، ویسے ہی دروناچاریہ نے بھی جیتنے کے بعد بھگوان ہنومان کا ذکر کرنا، ہنومان مندر میں درشن کو ٹی وی کے لئے ضروری بنانا اور حلف برداری کی تقریب میں بڑا سا تلک لگا کر، ٹوپی اتار کر شاہی گھرانے کی پوری ہی نقل کر دی۔
عام آدمی پارٹی کے ووٹر کو اپنے دروناچاریہ کی یہ باتیں ہضم تو نہیں ہوئیں، لیکن اس نے اتنی شدت اور جذبات کے ساتھ شاہی گھرانے کے طور طریقوں کی مخالفت کی تھی کہ اب ان کے لئے اپنے دروناچاریہ کو غلط کہنے میں بہت تکلیف ہو رہی ہے لیکن دبے الفاظ میں انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ دروناچاریہ تو شاہی گھرانے کا ہی آدمی نکلا اور اس کی پوجا کرنا اور اس کو اپنا استاد ماننا غلط تھا۔ ان کو یاد آ رہا ہے کہ دہلی میں شیلا دیکشت نے اپنے دور میں نہ تو کبھی رام لیلا میدان میں حلف لیا اور نہ ہی کبھی دکھاوا کیا، بلکہ عوام نے جو ان کو ذمہ داری دی اس کو بہت انکساری کے ساتھ پورا کیا۔ شیلا دیکشت نہ تو کبھی جیتنے کے بعد مندر گئیں اور نہ ہی انہوں نے کسی بھگوان کو اپنے خطاب میں موضوع بنایا کیونکہ ان کے لئے بھگوان اور مندر دونوں دہلی اور دہلی والے تھے۔ بہرحال اب سب چیزوں پر کیا سوچنا ایکلویہ تو دروناچاریہ کو اپنا انگوٹھا دے ہی چکا ہے اور اب وہ تیر اندازی کے لائق نہیں رہا ہے یعنی ایکلویہ تو ہمیشہ ہی چھلا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔