تم ہی قاتل، تم ہی شاہد، تم ہی منصف ٹھہرے...اعظم شہاب
پولیس و انتظامیہ نے یوگی جی کی مرضی کو آئین، قانون، جمہوریت سے بلند درجہ دے دیا، اس لئے توہینِ رسالتؐ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے
کانپور و الہ آباد (پریاگراج) میں توہین رسالتؐ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ تو قانون کے مطابق ہے اور نہ ہی آئین کے مطالب۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوگی حکومت نے خود کو قانون و آئین سے بالاتر سمجھ لیا ہے؟
ایک شخص کے گھر میں آگ لگا دی گئی۔ گھر کے مکین اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آگ لگانے والے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے لگے۔ موقع پر موجود شہر کی پولیس بجائے آگ لگانے والے کے، ان کو ہی پکڑنے لگی اور نہ صرف پکڑنے لگی بلکہ ان کے گھروں کو بھی مسمار کرنا شروع کر دیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ ان کے احتجاج سے شہر کا امن و امان خراب ہوتا ہے اور چونکہ ہمارا شہر امن و امان کا گڑھ ہے، اس لئے یہاں کسی کو احتجاج کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ آپ اسے یقیناً حد درجہ ناانصافی اور ظلم کہیں گے لیکن کیا کیا جائے کہ آج کل اسی ناانصافی اور ظلم کا مظاہرہ اتر پردیش میں ہمارے یوگی جی کی حکومت میں نہایت دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔ پولیس اور ان کی انتظامیہ نے یوگی جی کی مرضی کو آئین، قانون اور جمہوریت سے بلند درجہ دے دیا اور یہی وجہ ہے کہ توہینِ رسالتؐ کے خلاف احتجاج میں شامل لوگوں کو نہ صرف گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے مکانوں پر بلڈوزر بھی چلایا جا رہا ہے۔
الہ آباد میں توہینِ رسالت کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں جاوید محمد کے گھر پر یوگی جی کی پولیس نے بلڈوزر چلا کر اسے مسمار کر دیا۔ جاوید محمد پر احتجاج کا ’ماسٹرمائنڈ‘ ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح بم بلاسٹ کے ملزمین کو ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالت میں پہلی یا دوسری پیشی میں ہی اس ’ماسٹر مائنڈ‘ کے غبارے کی ہوا نکل جاتی ہے اور عدالتیں پولیس کو زبردست پھٹکار لگانے پر مجبور ہو جاتی ہیں لیکن وہ کہاوت ہے نا کہ ’پیا جو دن کو رات کہیں، ہم تارے دکھلا دیں گے‘ یوگی جی نے جب احتجاج کرنے والوں کو اُپدروی‘ کہا تو پولیس اور انتظامیہ بھلا انہیں فساد پھیلانے والا کیوں نہ قرار دے اور جب یہ پرامن احتجاج کرنے والے فسادی قرار پا گئے تو پھر ان کا گھر مسمار کر دیا جانا بھی ضروری نہ ہو گیا! پھر اس کے لئے اس عدالتی کارروائی کا بھی انتظار نہیں ہونا چاہئے، جس میں یہ معاملہ کل جائے گا، کیونکہ یوپی پولیس کے لیے یوگی جی عدالت ہیں اور ان کی منشا ہی انصاف ہے۔ انہوں نے دن کو رات کہہ دیا تو پھر پولیس و انتظامیہ تارے کیوں نہ دکھلائے؟
اِلٰہ آباد جسے پریاگ راج بنا کر یوگی جی نے لنکا جیت لی ہے، وہاں پر گزشتہ جمعہ کو توہین رسالتؐ کے خلاف احتجاج ہوا۔ اسی دن پورے ملک میں احتجاج ہوئے جس میں کچھ مقامات سے تشدد کی بھی خبریں آئیں لیکن الہ آباد چونکہ ہمارے یوگی جی کی ’اپلبدھیوں‘ میں سے ایک ہے، اس لیے وہاں پر مسلمانوں کا اور وہ بھی توہین رسالتؐ کے خلاف احتجاج بھلا کس صورت برداشت کیا جاسکتا تھا! شاید یہی وجہ ہے کہ یوگی جی کے میڈیا مشیر مرتنجے کمار نے سنیچر کو ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اپدروی یاد رکھیں، ہر جمعہ کے بعد ایک سنیچر ضرور آتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے ٹوئٹ کے ساتھ ایک عمارت کی تصویر بھی شیئر کی تھی جسے بلڈوزر سے منہدم کیا جا رہا ہے۔ یعنی احتجاج کرنے والوں کو براہ راست دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے احتجاج کیا تو ان کے مکانات پر بھی بلڈوزر چلا دیا جائے گا۔ لیکن ناموسِ رسالتؐ پر اپنی جان نچھاور کرنے والی اس جیالی قوم نے کسی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے توہینِ رسالت کے مرتکبین کو سزا دلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کر دیا۔
ہمارے یوگی جی کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں ’پردھان سیوک‘ کی طرح مخالفت کی کوئی آواز برداشت نہیں ہوتی اور معاملہ مسلمانوں سے متعلق ہو تو وہ تو قطعی برداشت نہیں ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی اس عادت کی وجہ سے وہ ایک بار نہیں کئی بار رسوا ہو چکے ہیں اور عدالتیں انہیں پھٹکار تک لگا چکی ہیں۔ ڈاکٹر کفیل خان کے معاملے سے لے کر ’سی اے اے‘ کے احتجاجیوں کے خلاف کارروائی کے ضمن میں انہوں نے بے عزتی کا جو شرف حاصل کیا ہے وہ شاید ہی کسی اور وزیر اعلیٰ کے حصے میں آیا ہو! لیکن اس کے باوجود ان کے ہوش ٹھکانے نہیں آتے۔ کہتے ہیں کہ سادھو سنتوں میں انا نہیں ہوتی اور وہ سبھی کو ایک نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کہاوت میں کتنی سچائی ہے، معلوم نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ یوگی میں ’اہنکار‘ اس قدر ہے ان کے اپنے بھی اس کے شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ان کے اہنکار کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کے خلاف، ان کی ہی پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی اور ان کی ہی حکومت کے وزیر اسی اسمبلی عمارت کے احاطے میں دھرنے پر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے تھے جس میں یوگی جی کا دفترِ اعلیٰ ہے۔
الہ آباد میں جس جاوید محمد کے مکان کو منہدم کیا گیا ہے وہ ’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘ کے ریاستی جنرل سکریٹری ہیں۔ سی اے اے تحریک کے دوران اہم رول ادا کرنے والی جے این یو کی ہونہار طالبہ آفرین فاطمہ ان کی صاحبزادی ہیں۔ آفرین فاطمہ نے حجاب کی حمایت میں چلنے والی تحریک میں بھی نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے اس کے لئے پورے ملک کا دورہ کیا تھا۔ اس لیے کہا یہ جا رہا ہے کہ آفرین فاطمہ کو نشانہ بنانے کے لیے جاوید محمد کے مکان پر بلڈوزر چلایا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آفرین فاطمہ جو کہ جے این یو دہلی میں ہیں، ان کو بھی اس معاملے میں شریک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الہ آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جاوید محمد کا مکان غیر قانونی طور پر تعمیر ہوا تھا، اس لیے اسے منہدم کر دیا گیا۔ اگر ایسا ہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مکان راتوں رات تعمیر ہو گیا تھا؟ یوگی جی کی حکومت کا یہ دوسرا دور ہے، کیا ابھی تک ان کی انتظامیہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ جاوید محمد کا مکان غیرقانونی ہے؟
سچائی یہ ہے کہ یوگی حکومت اپنے جبر اور منافرت کی سیاست پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ تاویلیں کر رہی ہے ورنہ ہرکسی کو معلوم ہے کہ جاوید محمد کے مکان پر بلڈوزر کیوں چلایا گیا ہے! توہین رسالتؐ کے خلاف احتجاج میں شریک ہونے والے جاوید محمد و دیگر مسلمانوں کے خلاف یوگی حکومت کا قدم قانون و انصاف کو قدموں تلے روندنے والا اور آئین و جمہوریت کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے این یو میں بھی یوگی حکومت کی اس زیادتی کے خلاف احتجاج ہوا ہے۔ اکھلیش یادو و ششی تھرور سمیت کئی سرکردہ لوگوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ اکھلیش یادو نے اتوار 12 جون کو ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے اس کو آئین کے خلاف قرار دیا۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا ہے ’’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس کی وجہ سے ملک میں حالات بگڑے اور دنیا بھر میں سخت ردعمل ظاہر ہوا وہ سیکوریٹی کے گھیرے میں ہے اور پرامن مظاہرین کو بنا قانونی جانچ پڑتال کے بلڈوزر سے سزا دی جا رہی ہے۔ اس کی اجازت نہ ہماری تہذیب دیتی ہے، نہ دھرم، نہ قانون اور نہ آئین۔‘‘
حقیقی مجرموں کے سامنے منھ سے ہی ٹھائیں ٹھائیں کرنے والی یوگی جی کی پولیس کی ایک وحشیانہ ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے، جس میں پولیس چند مسلم نوجوانوں کومحض اس لیے بے رحمی سے مار رہی ہے کہ انہوں نے توہین رسالتؐ کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ ہم اس ویڈیو کی سچائی کی کوئی تصدیق کرنے کے بجائے صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وحشیانہ ٹارچر کے ذریعے ہر کسی سے جرم قبول کروانے کا نتیجہ یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اس نے واقعتاً جرم کیا ہے۔ کانپور اور الہ آباد میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور جن کے مکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں، ان میں سے کتنے لوگ واقعتاً کسی تشدد میں ملوث ہیں، اس کی تفتیش کے بعد ہی کوئی کارروائی ہونی چاہئے لیکن محض اس لیے کہ یوگی جی کو مسلمانوں کا احتجاج کسی طور پسند نہیں ہے، مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے اور انہیں گرفتار کر کے ان کے ساتھ وحشیایہ سلوک کیا جا رہا ہے، یہ کسی طور پر آئین کے مطابق نہیں ہے۔ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں انہیں والی آسی کا یہ شعر ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ،
وقت ہرظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔