اپنا نیلابھ نہ جانے کیوں ساتھ چھوڑ کر چلا گیا...

نیلابھ نے زمانۂ طالب علمی میں ہی عوام کے مفاد کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ چاہتے تو سول سروسز کی تیاری کر سکتے تھے لیکن انھوں نے خود کو عوام کے لیے وقف کر دیا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

اُرملیش

آج کے گھمنڈ اور نمائش بھرے میڈیا کےماحول میں نیلابھ بالکل الگ ڈھنگ کے انسان تھے۔ عیاری، جھوٹ اور انا سے لبریز اپنے اپنے ’اسٹارڈم‘ میں غرق زیادہ تر ٹی وی اینکرس اور ہندی و انگریزی کے زیادہ تر بڑے مدیر و صحافی معمولی سی شہرت حاصل کرنے کے بعد سیاست میں ’کچھ بڑا‘ حاصل کرنے کے لیے بڑے لیڈروں کے آگے پیچھے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی مثالیں برسراقتدار طبقہ اور سابقہ برسراقتدار طبقہ دونوں طرف موجود ہیں۔ نیلابھ پڑھائی لکھائی کے بعدسیدھے سیاست میں جا سکتے تھے۔ اگر وہ چاہتے تو بہار میں کوئی بھی پارٹی انھیں کم از کم اسمبلی کا ٹکٹ دینے میں شاید ہی کسی طرح کی جھجک محسوس کرتی۔ ذرا سی کوشش کرتے تو لوک سبھا کا ٹکٹ حاصل کرنا یا مستقبل میں وزیر وغیرہ بننا بھی ان کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک بہت معروف خاندانی پس منظر تھا۔ لیکن نیلابھ نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں ہی عوام کے مفاد کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ چاہتے تو مکھرجی نگر یا تیمار پور کی طرف رہنے والے ہزاروں بہاری نوجوانوں کی طرح دہلی یونیورسٹی کے اپنے طالب علمی کے زمانے میں سول سروسز کی تیاری کر سکتے تھے۔ ان کی انگریزی اور ہندی دونوں ٹھیک ٹھاک تھی اور باصلاحیت تو وہ تھے ہی۔ افسرشاہی میں گھسنا بھی ان کے لیے بہت مشکل کام نہیں تھا۔

لیکن نیلابھ نے 80 کی دہائی میں صحافت کا راستہ اختیار کیا۔ انھیں لگا کہ اس کے ذریعہ وہ عام لوگوں کی بات ایک بڑے دائرے میں پہنچا سکتے ہیں۔ اس وقت میڈیا کا ماحول آج جیسا پراگندہ نہیں تھا۔ سماج اور عوام کے وسیع مفاد کے لیے صحافت میں جگہ تھی۔ اس کے ٹھوس اسباب بھی تھے۔ سماج میں تبدیلی کی بے چینی تھی۔ کئی طرح کی بڑی بڑی تحریکیں ہو چکی تھیں۔ اس سے پہلے بنگال، بہار سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں اراضی، عزت اور مزدوری کے لیے قبائلیوں اور غریبوں کے اشتعال انگیز انقلاب برپا ہو چکے تھے۔ ایسا نہیں کہ صحافت میں اقتدار کی چاپلوسی اس وقت نہیں ہوتی تھی۔ گھٹنا ٹیکنے والے لوگ اس وقت بھی تھے، لیکن ان دنوں بہار میں صحافت میں ایک ایسی مضبوط لہر اُبھر رہی تھی جو ہر طرح کے اقتدار کے خلاف عوام کی آواز بننے کی کوشش کرتی تھی۔ اس وقت آج کی طرح ہر شام ٹی وی چینلوں پر ’بھکتی بھاؤ‘ کے ساتھ ایک ہی طرح کا بھجن گانے والی قسم قسم کی ’منڈلیاں‘ نہیں سجتی تھیں۔ صحافیوں کا ایک گروپ جوکھم لے کر سماج اور عوام کی بات کرتا تھا۔ عام لوگوں میں ایسی صحافت اور صحافیوں کے لیے عزت اور حمایت تھی۔ نیلابھ اور ہم سبھی لوگ اسی دور میں صحافی بنے۔

نیلابھ سے میری پہلی ملاقات پٹنہ واقع ’نوبھارت ٹائمس‘ کے دفتر میں ہوئی۔ میں دہلی سے بہار گیا تھا۔ نیلابھ دہلی سے پڑھے تھے لیکن بہار سے تھے، ٹھیٹھ بہاری۔ جے این یو سے نکلنے کے تقریباً ڈھائی سال بعد مجھے مستقل ملازمت ملی تھی۔ ان دنوں ’نوبھارت ٹائمس‘ کے چیف ایڈیٹر ہندی کے معروف صحافی راجندر ماتھر تھے۔ انھوں نے طے کیا تھا کہ پٹنہ کے لیے سبھی تقرریاں وہ ٹیسٹ اور انٹرویو کے ذریعہ کریں گے۔ اس لیے وہاں ماما-بھانجا، چاچا-بھتیجا، جیجا-سالا، بھومیہار-بھومیہار، برہمن-برہمن یا راجپوت-راجپوت (ان دنوں بہار میں 95 فیصد سے زیادہ صحافی انہیں برادریوں سے آتے تھے) والا معاملہ ’نو بھارت ٹائمس‘ کی اس تقرری کے عمل میں عام طور پر نہیں چلا۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹیسٹ کی کاپیاں ماتھر صاحب کی نگرانی میں جانچی گئیں۔ ڈپٹی ایڈیٹر سے نیوز ایڈیٹر، سبھی عہدوں کے انٹرویو میں ماتھر صاحب خود موجود رہے۔ نیلابھ سمیت ہم سب لوگ اسی عمل سے گزرتے ہوئے ’نو بھارت ٹائمس‘ کے صحافی بنے۔ میں اسٹاف رپورٹر کے طور پر بحال ہوا تھا اور نیلابھ ڈیسک پر نائب مدیر کی شکل میں۔ میں نے سنہ 1986 کے اپریل کے پہلے ہفتہ میں جوائن کیا۔ غالباً انھوں نے کچھ وقت بعد جوائن کیا۔ اخبار کا پٹنہ سے نیا ایڈیشن نکلنا تھا اور یہاں کئی بڑے علاقائی اخبار پہلے سے جمے ہوئے تھے اس لیے ہمارے دفتر میں نئے ایڈیشن کی تیاری کچھ پہلے ہی شروع کر دی گئی۔ کئی کئی مرتبہ ورکشاپ لگائے گئے۔ اس دوران ہم سارے لوگ ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔ کون کیا اور کتنا کھاتا یا پیتا ہے، اس سے بھی ہم سب واقف ہو گئے۔ لیکن میرے جیسے بہار کے باہر سے آئے شخص کو نیلابھ کی طرف سے اس بات کی کبھی بھنک تک نہیں ملی کہ وہ چمپارن کے مشہور اور بے حد معزز سماجی کارکن اور بہار کانگریس کے نائب صدر پرجاپتی مشر کے پوتے اور حکومت بہار کے سابق کابینہ وزیر پرمود کمار مشر کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے رشتہ دار اور میرے دوست صحافی اروند موہن نے بتایا کہ نیلابھ کی دادی کیتکی دیوی بھی چمپارن کے چنپٹیا علاقے سے دو مرتبہ ممبر اسمبلی رہ چکی تھیں۔ نیلابھ کی ماں اتر پردیش سے تھیں اور مشہور و معروف سماجوادی لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ رما شنکر کوشک کی بھتیجی تھیں۔ نیلابھ کے دادا چمپارن ستیاگرہ میں مہاتما گاندھی کے معاون رہے تھے۔ لیکن اتنی معروف فیملی سے آنے والے نیلابھ نے اس دور میں ہم جیسے نئے لوگوں کے درمیان اپنے اس خاندانی پس منظر کا کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ جو لوگ پہلے سے جانتے تھے ان کی بات الگ تھی۔

سچ پوچھیے تو نیلابھ کے اس خاندانی پس منظر کے بارے میں مجھے بہت بعد میں اس وقت پتہ چلا جب کسی نے بتایا کہ وہ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور جے این یو میں میرے ہمعصر ڈاکٹر انل مشر اور صحافی اروند موہن کے رشتہ دار ہیں۔ جس دوست نے یہ بات بتائی اسی نے نیلابھ کے خاندانی پس منظر کا تفصیلی تذکرہ کیا۔ نیلابھ سے متعلق اس پس منظر کے صرف ایک پہلو کی مجھے جانکاری ملی تھی۔ ایک دن ہم لوگ کسی ٹی وی چینل پر ساتھ ساتھ پینل ڈسکشن میں موجود تھے۔ موضوع اترپردیش سے متعلق تھا۔ پروگرام میں نیلابھ نے بہت اچھے تبصرے کیے۔ کئی نئی باتیں سامنے رکھیں۔ میں نے حیرانی کے ساتھ پوچھا ’’نیلابھ، تم نے اتر پردیش کے جغرافیہ اور سماجی و سیاسی فارمولوں کی تاریخ اور حال کے بارے میں اتنی ساری جانکاری کہاں سے حاصل کی؟ لگتا ہے اِدھر اتر پردیش پر کافی مطالعہ کیے ہو!‘‘ اس دن پہلی بار نیلابھ نے اپنی ماں کی اتر پردیش واقع آبائی خاندانی پس منظر کا تذکرہ کیا۔

لیکن نیلابھ اپنے والد یا دادا و دادی کی سیاسی وراثت کے پرچم بردار نہیں بنے۔ شاید طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا لگاؤ مارکسوادی نظریات سے ہوا۔ بہار میں کئی مشہور و معروف لیفٹ لیڈروں، رائٹروں، دانشوروں اور ترقی پذیر نظریات کے حامل صحافیوں سے اس کے گہرےر شتے رہے۔ ان میں پروفیسر پردھان ہری شنکر پرساد، ڈاکٹر ششی بھوشن، ڈاکٹر ونین، صحافی ارون سنہا، اُتم سین گپتا اور کرن شاہین وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ جب مجھے پتہ چلا کہ نیلابھ بہار کے ایک مشہور و معروف کانگریسی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں تو تھوڑی حیرانی بھی ہوئی۔ ان دنوں میں ’نو بھارت ٹائمس‘ میں پالٹیکل سیکشن سنبھالتا تھا اور برسراقتدار کانگریس اور قانون سازیہ وغیرہ کی سرگرمیوں کی کوریج کا انچارج تھا۔ لیکن میں نے اپنے پٹنہ کے دور میں شاید ہی کبھی نیلابھ کو کسی کانگریسی لیڈر یا سرکل میں کہیں دیکھا ہو۔ وہ ہمیشہ ترقی پسند نظریات کے لیفٹ رجحان والے یا سول لبرٹیز تنظیم سے جڑے لوگوں کے نزدیک نظر آتے تھے۔

پٹنہ واقع ’ٹائمس ہاؤس‘ میں ہم لوگوں نے مینجمنٹ کے کئی الٹے سیدھے فیصلوں اور ناانصافی والے اقدام کے خلاف ساتھ ساتھ لڑائی بھی لڑی۔ ’نو بھارت ٹائمس‘ میں ہمارے ایک دوسرے دوست نویندو کے ساتھ نیلابھ کی جوڑی بہت مشہور ہوئی تھی۔ دفتر اور یونین سے متعلق تمام سرگرمیوں میں دونوں کے درمیان اچھا تال میل نظر آتا تھا۔ چونکہ دونوں ڈیسک پر ساتھ ساتھ تھے اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ وقت بھی زیادہ گزارتے تھے۔ اپنے ڈیسک پر کئی لوگوں کو بہترین ادارت کے لیے پہچانا جاتا تھا۔ یہ تھے نیلابھ، نویندو، شری چند اور گنجن سنہا (گزشتہ دنوں گنجن نے کینسر سے طویل لڑائی میں فتح حاصل کی)۔ یہ سبھی ساتھی ہمارے درمیان ہیں، بس اپنا نیلابھ نہ جانے کیوں پہلے ہی ساتھ چھوڑ کر چلا گیا۔

پٹنہ واقع ’نو بھارت ٹائمس‘ کے بند ہونے کے بعد نیلابھ دہلی ہوتے ہوئے جے پور پہنچے۔ وہاں انھوں نے ’ایناڈو گروپ‘ کے انگریزی اخبار ’نیوز ٹائم‘ کے راجستھان رپورٹر کے طور پر بہت اچھا کام کیا۔ بعد کے دنوں میں انھوں نے ’آؤٹ لک‘ ہندی میں کام کیا اور کچھ وقت کے بعد اس کے مدیر بنا دیے گئے۔ ونود مہتا جیسے انگریزی کے ماہر مدیر نے نیلابھ سے گزارش کر کے ’آؤٹ لک‘ کے لیے انگریزی میں مستقل کالم لکھوایا۔ اس کالم کو خوب پڑھا گیا۔ اس سے نیلابھ کو راجدھانی کے انگریزی صحافیوں اور قارئین میں نہ صرف اپنی موجودگی درج کرانے کا موقع ملا بلکہ وقار بھی قائم ہوا۔ ’آؤٹ لک‘ ہندی کی ادارت چھوڑنے کے بعد نیلابھ کچھ وقت تک فری لانسنگ کرتے رہے۔ پھر ’نیشنل ہیرالڈ‘ کی دوبارہ اشاعت کی ذمہ داری انھیں سپرد کی گئی اور اس کے چیف ایڈیٹر بنے۔ اپنے نئے ادارہ میں ابھی انھوں نے غالباً جوائن بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن میری گزارش پر وہ راجیہ سبھا ٹی وی پر میرے ذریعہ پیش کردہ ہفتہ واری پروگرام ’میڈیا منتھن‘ میں ایک پینلسٹ کی شکل میں آئے۔ انھوں نے اپنی نئی ذمہ داری کی اطلاع مجھے دے رکھی تھی۔ پھر بھی میں نے پوچھا ’’نیلابھ، آج کے پروگرام میں تمھیں کس شکل میں مخاطب کروں یا ناظرین کو تمھارے بارے میں کیا بتاؤں... سینئر صحافی یا...؟‘‘ نیلابھ نے اپنی جانی پہچانی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا ’’اب آپ نئی ذمہ داری کا تذکرہ کر سکتے ہو!‘‘ اور اس طرح اس دن میں نے نیلابھ کو ’نیشنل ہیرالڈ‘ کے چیف ایڈیٹر کی شکل میں ناظرین کے سامنے پیش کیا۔

پروگرام کے بعد چائے پیتے ہوئے ان سے ’نیشنل ہیرالڈ‘ میں ان کی جوائننگ سے متعلق ڈھیر ساری باتیں ہوئیں۔ انھوں نے ایک بات بہت شدت سے کہی ’’آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اپنے مزاج سے الگ اسائنمنٹ میں نے کیوں منظور کیا؟ لیکن ہیرالڈ کے اعلیٰ اہلکاروں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ پارٹی کے ’ترجمان‘ جیسی بات تو دور رہی، یہ ہر ایشو پر کانگریس پارٹی کی لائن کو فالو بھی نہیں کرے گا۔ کانگریس کی تنقید بھی کرے گا۔ یہ سیکولر-ڈیموکریٹک آواز کا ایک میڈیا اسٹیج ہوگا۔ آج جس طرح کے خطرے ہماری آئین پر منڈلا رہے ہیں اس میں ایسے اسٹیج کی ضرورت میں نے بھی محسوس کی۔ اسی لیے اسائنمنٹ منظور بھی کیا۔ دیکھو، کیا ہوتا ہے!‘‘

نیلابھ نے کم ہی مدت میں ’نیشنل ہیرالڈ‘ اور ’نو جیون‘ کی ویب سائٹ لانچ کر دی۔ اُتم سین گپتا جیسے سینئر اور قابل ساتھی بھی ٹیم میں کارگزار مدیر کے طور پر جڑ گئے۔ لیکن یہ کیا، نیلابھ زیادہ وقت رکے نہیں، آخرت کے سفر میں نہ جانے کیوں اتنی جلدی اُڑ گئے۔ تمھاری بہت یاد آئے گی نیلابھ، وہ پٹنہ کے فریزر روڈ کی گھمکڑ، راجستھان ریستوراں یا منگولیا کی کبھی کبھی کی بیٹھکی اور کسی دوست کے گھر جم کے بھوج-بھات!

بیماری کے دوران دو یا تین بار میری نیلابھ سے ملاقات ہوئی۔ آخری ملاقات دہلی واقع ایمس کے خصوصی وارڈ میں ہوئی۔ کویتا جی ان کے ساتھ تھیں۔ تب وہ پرامید تھا۔ لگتا تھا سب کچھ ٹھیک ہوگا، وہ پہلے کی طرح قہقہہ لگائے گا، دوستوں کے ساتھ جم کر مٹن کھائے گا، اچھی موسیقی سنتے ہوئے گرین ٹی پلائے گا اور سیاست کے آئندہ فارمولوں پر مذاکرہ کرے گا۔ لیکن آج اچانک یاد آ رہا ہے، ایک بار بیماری کے دوران ہی ایک دعوت میں ملاقات ہوئی۔ اسے عام غذا نہیں کھانا تھا۔ مسالے دار غذا سے اس کو بچنا تھا۔ کچھ ہلکی پھلکی چیزیں ایک پلیٹ میں لے کر وہ ایک طرف جا کر بیٹھ گیا۔ میں کھانا کھا چکا تھا۔ میں بھی وہیں جا کر بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک ہم لوگ لان میں بات کرتے رہے۔ میں نے صحت میں بہتری سے متعلق پوچھا۔ اس نے بڑے صاف لفظوں میں کہا ’’دیکھو، پہلے سے حالت یقیناً بہتر ہوئی ہے لیکن اس بیماری کے بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ میرے خاندان میں کئی لوگ اسی طرح کے مرض سے کم عمری میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان میں کئی لوگوں کے مقابلے میں نے زیادہ عمر پائی ہے۔‘‘ میں نے اس میں امید اور اعتماد بھرنے کی غرض سے کہا ’’اس دور سے موازنہ مت کرو۔ آج پہلے سے زیادہ ماہر ڈاکٹر اور علاج کا بہتر نظام ہمارے پاس ہے۔ اس لیے وہ سب باتیں مت سوچا کرو!‘‘ کافی وقت بعد ایک دن میں نے اسے فون کر کے حال چال جاننا چاہا لیکن فون نہیں اٹھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے اور انھیں بہتر علاج کے لیے چنئی لے جایا گیا۔ لیکن نیلابھ چلے گئے...۔ اے دوست! تجھ کو سلام اور خراج عقیدت۔ بار بار بہت یاد آؤ گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔