اپوزیشن جماعتوں کو اپنی انا کی قربانی دینی ہوگی... سہیل انجم
اپوزیشن جماعتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ کیا وہ ہندوستان کو رام راجیہ کے نام پر ایک کٹر ہندو ملک بنانا چاہتی ہیں یا وہ اس کے حق میں ہیں کہ یہ ملک ایک سیکولر اور جمہوری ملک بنا رہے۔
اس وقت ہندوستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اس کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک اور آئڈیا آف انڈیا کے نظریے کو یقینی بنانے کی طرف جاتا ہے اور دوسرا ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر اور ہندو آمریت کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کا فیصلہ اگلے سال یعنی 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں ہونا ہے کہ ہندوستان کو کیا بننا ہے اور کیا نہیں۔ عام انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ یہ ملک کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی، کثیر لسانی اور کثیر تہذیبی ملک بنا رہے گا یا پھر ایک ایسا ملک بن جائے گا جہاں نہ تو مذہبی اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ ہو اور نہ ہی ہندوتوا کے علاوہ کسی اور مذہب کے باقی رہنے کی کوئی گنجائش ہو۔
یہ بھی پڑھیں : وشو گرو جی چپ کیوں ہیں، کچھ تو بولیے نا!... سہیل انجم
لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا اور اس کی ذمہ داری کس پر عاید ہوتی ہے۔ اس سوال کا جواب بہت سیدھا سادا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا فیصلہ ملک کے عوام کریں گے۔ یہ ذمہ داری انہی پر عاید ہوتی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ذمہ داری سیکولر اور جمہوری سیاسی پارٹیوں پر عاید ہوتی ہے۔ ان کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ کیا وہ ہندوستان کو رام راجیہ کے نام پر ایک کٹر ہندو ملک بنانا چاہتی ہیں یا وہ اس کے حق میں ہیں کہ یہ ملک ایک سیکولر اور جمہوری ملک بنا رہے۔
اس سوال کے علاوہ ایک اور سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اپنی بقا کی جدوجہد کے لیے تیار ہیں اور کیا وہ اس فسطائی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ ہیں جو ہندوستان کو ایک آمریت میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس بار عوام سے زیادہ ان سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے۔ اگر وہ چاہتی ہیں کہ ان کا وجود باقی رہے اور یہ ملک سیکولر اور جمہوری ملک بھی بنا رہے تو انھیں قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
انھیں ہر قسم کی قربانی دینی ہوگی اور سب سے بڑی قربانی اپنی انا کی دینی ہوگی۔ انھیں اپنے احساس برتری کو ترک کرکے سیاسی عزائم کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ انھیں ذاتی پسند و ناپسند کے دائرے سے بھی باہر نکلنا ہوگا اور اگر ضرورت پڑے تو سیاسی نقصان بھی اٹھانے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ انھیں اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ اگر اس ملک کو ایک سیکولر اور جمہوری ملک کے طور پر باقی رکھنا ہے تو انھیں بی جے پی کے مقابلے میں ایک مضبوط اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ ایک ایسا اتحاد جس میں تمام ہم خیال پارٹیاں شامل ہوں اور ان کو ایک کم سے کم مشترکہ پروگرام یا کامن منیمم پروگرام کا خاکہ تیار کرنا ہوگا اور پھر اس کے مطابق حکمت عملی بنانی ہوگی۔
اس وقت متعدد اپوزیشن جماعتیں اتحاد کی باتیں کر رہی ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد کی آواز اٹھائی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے رہنما لالو پرساد یادو نے بھی اپوزیشن اتحاد پر زور دیا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہو کر الیکشن لڑیں تو بی جے پی کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔ نتیش کمار کے مطابق بی جے پی کو ایک سو سیٹوں سے بھی کم پر لایا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں اتحاد کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
جب بھی اتحاد کی بات ہوتی ہے تو کانگریس کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کانگریس اس ملک کی ایک تاریخی پارٹی ہے۔ اس کا 137 سال کا ریکارڈ ہے۔ اس کے تاج میں کامیابیوں کی متعدد کلغیاں سجی ہوئی ہیں۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس ملک کو ایک سیکولر جمہوری ملک بنایا تھا۔ اس ملک میں سب سے زیادہ مدت تک کانگریس نے ہی حکومت کی ہے۔
لیکن جب ملک میں نیا سیاسی کلچر پیدا ہوا اور علاقائی جماعتوں کا وجود ہوا تو کانگریس نے بوقت ضرورت ان پارٹیوں سے اتحاد بھی کیا اور جب ضرورت پڑی تو اس نے اپنے سیاسی عزائم کو خیرباد بھی کیا۔ جس کے نتیجے میں اس کی حمایت سے غیر کانگریسی و غیر بی جے پی پارٹیوں کی حکومت قائم ہوئیں۔ اور جب ضرورت پڑی تو اس نے متعدد ہم خیال جماعتوں کا اتحاد قائم کرکے 2004 سے 2014 تک حکومت بھی چلائی۔
مرکز میں کانگریس پارٹی کو حکومت کرنے کا جو تجربہ ہے وہ ظاہر ہے کسی اور پارٹی کے پاس نہیں ہے۔ بی جے پی بھی ایسے کسی تجربے سے عاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے ملک کے سیاسی کلچر کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس نے سیاست کے معیار کو اتنا پست کر دیا ہے کہ اب سے قبل ایسی پستی نہیں دیکھی گئی تھی۔ لہٰذا اگر کانگریس کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد قائم ہوگا اور وہ اتحاد اگلے پارلیمانی انتخابات کے بعد مرکز میں حکومت بنائے گا تو کچھ غلط نہیں کہہ رہے ہیں۔
رائے پور میں چلنے والے کانگریس کے اجلاس میں بھی اپوزیشن اتحاد کی بات اٹھی ہے اور اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔ اجلاس میں ایک اور بہت اہم بات کہی گئی کہ تھرڈ فرنٹ کی بات کرنا بی جے پی کی حمایت کرنا ہوگا۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ بی جے پی کی کامیابی اپوزیشن پارٹیوں کے انتشار کی مرہون منت ہے۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو جائیں اور بی جے پی کے ہر امیدوار کے مقابلے میں ان کا ایک متحدہ امیدوار ہو تو بی جے پی کو آسانی کے ساتھ شکست دی جا سکتی ہے۔
تھرڈ فرنٹ یا تیسرے محاذ کی بات کرنا سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا۔ اس صورت میں سیکولر ووٹوں کا بکھراؤ ہوگا جس کا فائدہ بی جے پی اٹھائے گی۔ اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو اور خاص کر ممتا بنرجی، کے سی آر، کیجریوال، اکھلیش یادو اور مایاوتی کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر وہ متحد نہیں ہوئے تو بی جے پی کی فتح کو روک پانا ناممکن ہوگا۔ اور یہ اتحاد اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب اس میں کانگریس بھی شامل ہو۔ کانگریس کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی اپوزیشن اتحاد کامیابی کے مراحل طے نہیں کر پائے گا۔ اپوزیشن پارٹیوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور موجودہ ملکی صورت حال کے تناظر میں غور و فکر کرنی چاہیے۔
ان کو یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگر اس بار بی جے پی کامیاب ہو گئی تو پھر ان سیاسی پارٹیوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ابھی تو صرف ای ڈی وغیرہ کی مدد سے انھیں کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس صورت میں انھیں ختم کرنے کے لیے تمام ممکنہ حربے اختیار کیے جائیں گے۔ لہٰذا اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اناؤں کی قربانی دیں اور مل کر ایک ایسا مضبوط اتحاد قائم کریں جو بی جے پی کو شکست دے سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔