کانوڑ کے راستہ میں دکانوں پر نام لکھنے کا حکم بہت کچھ اشارے کر رہا... آکار پٹیل
ظاہری طور پر دکانداروں کو اس طرح کا حکم دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش ہو۔
نظریات پر مبنی پارٹیوں کے کمزور لیڈر ہمیشہ ایسے لیڈران کے سامنے غیر محفوظ ہوتے ہیں جو ان سے زیادہ شدت پسندی اختیار کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ بات اتر پردیش کے موجودہ ماحول میں قابل غور ہے اور اس کی بہترین مثال بھی ہے کہ ہم مستقبل میں اقلیت والی حکومت سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔ دہلی (مرکزی حکومت) میں بی جے پی کے سبھی اتحادیوں نے اس خیال کی مخالفت کی ہے کہ اتر پردیش کے (کانوڑ یاترا کے راستوں پر آنے والے) دکانداروں کو اپنا نام (اور ساتھ ہی اپنا مذہب) ظاہر کرنے پر مجبور کیا جائے۔
ظاہری طور پر دکانداروں کو اس طرح کا حکم دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش ہو۔ نہ ہی اس طرح کا کوئی مطالبہ کیا گیا اور نہ ہی ماضی میں یہ (دکانداروں کا نام) کوئی مسئلہ رہا ہے۔ پہلے تو بغیر کسی سرکاری حکم کے دکانوں پر مالکان کا نام لکھنے کی ہدایت دی گئی، اور ظاہر کیا گیا کہ یہ رضاکارانہ ہے۔ اس سے یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کارروائی صرف ایک ہلچل پیدا کرنے کے لیے کی گئی تھی۔
پھر غور کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ معاملہ ایک دن پہلے شائع خبر سے کچھ بڑا ہو گیا ہے۔ ایک دن پہلے کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ لوک سبھا انتخاب میں شکست کی وجہ سے مشکلات میں ہیں۔ سبھی نیوز چینل اس بات کو لے کر قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ آگے کیا ہوگا۔ لیکن اب یہ کوئی کہانی نہیں رہی، کیونکہ وزیر اعلیٰ نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس سے ماحول بدلنے کا انتظام ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ مرکزی وزیر اس حکم (دکانوں پر مالکان کا نام لکھنے) کا دفاع کر رہے ہیں، یا پھر اس خیال کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں کیا جا رہا کہ وہ اس حکم سے متفق نہیں ہیں، بلکہ یہ بیان اس لیے دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ دہلی میں بیٹھی (مرکزی) حکومت کے لیے مفید نہیں۔ آخر اپنے اتحادیوں کو نااتفاقی اور ناراضگی ظاہر کرنے کا موقع کیوں دیا جائے! اس سے یہ وہم دور نہیں ہوتا کہ 4 جون کے بعد کچھ نہیں بدلا۔ لیکن ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔
اتر پردیش میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی مخالفت بھی نہیں کی جا سکتی، اور یہی نظریات پر مبنی پارٹیوں کا مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ صرف وہی کر رہے ہیں جو بی جے پی اپنی پوری تاریخ میں اقلیتوں کے خلاف کرتی رہی ہے۔ ایسا اس لیے، کیونکہ یہی اس کا نظریہ ہے۔ یہی عمل اگر چھ ماہ قبل یا گزشتہ سال کیا جاتا تو الگ بات ہوتی، لیکن یہ نیا وقت ہے، اب نئے حالات ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کی جھلک دیکھی ہے۔ 20 سال پہلے کی بات ہے جب کمزور لیڈر کو ایک زیادہ شدت پسند لیڈر کی طرف سے چیلنج پیش کیا گیا تھا۔
اپریل 2002 کی بات ہے، جب گوا میں بی جے پی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کا انعقاد گودھرا حادثہ کے بعد پیش آئے پرتشدد واقعات (جس میں تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے) کے ایک ماہ بعد ہوا تھا۔ میڈیا میں خبر چل رہی تھی کہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو عہدہ سے ہٹانے جا رہے ہیں۔
29 اپریل 2002 کو ایک رسالہ نے اس معاملے میں رپورٹ شائع کی جس میں بتایا کہ جیسے ہی پارٹی صدر جن کرشن مورتی نے اپنا صدارتی خطاب مکمل کیا، مودی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ’’صدر محترم، میں گجرات پر کچھ بولنا چاہتا ہوں... پارٹی کے نقطہ نظر سے یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اس پر آزادانہ اور بے تکلف بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس لیے میں ادارہ کے سامنے اپنا استعفیٰ دینا چاہتا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے یہ فیصلہ کرنے کا کہ اس جگہ سے پارٹی اور ملک کو کیا رخ لینا چاہیے۔‘‘ رپورٹ میں آگے لکھا گیا کہ انھیں (وزیر اعظم واجپئی کو) مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ایک جھٹکے میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نے پیش قدمی کر دی۔ اس طرح انھوں نے اپنے حامیوں میں ایک جوش پیدا کر دیا۔ کئی لوگ کھڑے ہو گئے جو گنتی کیے جانے کے لیے تیار تھے۔ وزیر خوراک شانتاکمار نے مودی اور وی ایچ پی کی شدت پسندی کے خلاف جو آواز اٹھائی تھی، انھیں پھٹکار لگائی گئی۔ انھیں ڈسپلنری کمیٹی کا سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی معافی مانگنے کے لیے بھی مجبور ہونا پڑا۔
وزیر اعظم واجپئی نے مودی کے استعفیٰ کو بھلے ہی اپنی ذاتی شبیہ اور (این ڈی اے) اتحاد کی یکجہتی کے لیے دانشمندانہ قدم تصور کیا ہو، لیکن مودی حامی جذبہ کی شدت کے خلاف وہ بالکل بھی نہیں جا سکتے تھے۔ انھوں نے ایک دن تک اس معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی، لیکن اس کی بھی مخالفت کی گئی۔ ایسے میں مودی کو پس پشت ڈالنے سے متعلق واجپئی کی ناکام کوشش کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ ایک خاص نظریہ کے تحت پرورش پانے والے کیڈر کو اعتدال پسندی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، شدت پسند پارٹیوں کے لیڈر ہمیشہ اپنے دائیں جانب موجود کرشمائی اشخاص کے سامنے کمزور ہوتے ہیں۔ یہ کرشمائی اشخاص زیادہ کوشش کرنے اور زیادہ جوکھم اٹھانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، یہ کیڈر کے جوش کو بہتر انداز سے ظاہر کرنے میں اہل ہوتے ہیں۔
بی جے پی کے ذریعہ گجرات میں اپنی قیادت کو تبدیل کرنے سے انکار، یا پھر یہ کہیں کہ ناکامی کی وجہ سے مودی کی ملک بھر میں، بلکہ حقیقی طور پر دنیا بھر میں بدنامی اور شہرت ہو گئی۔ بابری مسجد انہدام کے بعد کی دہائی میں معذرت خواہ ظاہر ہونے والا ہندوتوا اب ختم ہونے کی طرف تھا۔ بی جے پی کیڈر اور آر ایس ایس کے پاس ایک مضبوط ہیرو تھا جو بولتا اور محسوس کرتا تھا، حقیقی معنوں میں یہ وہی کرتا تھا جیسا کہ کیڈر اپنے لیڈروں سے امید کرتے تھے۔
موجودہ حالات کی بات کریں تو اب ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ چمک 4 جون کے بعد ختم ہو گئی ہے۔ اگر وزیر اعظم حکومت کے اندر بہتر طریقے سے کام کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اس طرح کے ایشوز سے گریز کرنا ہوگا جو اتحاد میں شامل پارٹیوں کو بلاوجہ مشتعل کرتے ہیں، جیسے کہ دکانوں پر نام لکھوانے کا معاملہ۔ یاد رکھیں کہ اتحاد میں شامل پارٹیاں ہمیشہ ایسے ایشوز کی تلاش میں رہتی ہیں جن سے وہ دباؤ ڈال کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ کروا سکیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 240 سیٹوں والے وزیر اعظم نے سخت گیر ہیرو کی اپنی شبیہ میں نرمی پیدا کی ہے۔ انھوں نے دوسروں کو آگے آنے کا موقع دیا ہے اور یہ محسوس کیا جا سکتا ہے، اور بی جے پی کے اندر اب یہ نظر آئے گا۔ پارٹی میں جو لوگ خطرہ محسوس کرتے ہیں، یا اپنی پوزیشن مشکل میں جاتا دیکھ رہے ہیں، یا انھیں لگتا ہے کہ انھیں کسی طرح دوسروں پر اپنا دبدبہ بنانے کی ضرورت ہے... وہ اس فارمولے کا استعمال کرنے پر غور کریں گے۔ کئی لوگ واقعی میں اس کا استعمال کریں گے، نظریات پر مبنی پارٹیوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ یہ تیسری مدت کار ان (مودی) کے لیے بہت مختلف ہونے والی ہے، اور مبصرین کے لیے بھی یہ مدت کار دلچسپ ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔