150ویں یوم شہادت کے موقع پر: گمنام مجاہد آزادی شیر علی خاں آفریدی... شاہد صدیقی علیگ
جب شیر علی خاں آفریدی کو 11 مارچ 1872ء کو سولی پر چڑھایا گیا تووہ بالکل ہراساں نہ تھے، انہوں نے دلیری سے کہا کہ: میں نے جب اس کام کا ارادہ کیا تھا تو اپنے تئیں پہلے سے مردہ سمجھ لیا تھا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مادر ہند کو برطانوی غلامی کے بندھنوں سے آزاد کرانے میں مسلمانوں نے دوسرے ابنائے وطن کے پسینہ سے زیادہ لہو بہایا ہے، مگر ستم ظریفی ہے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمان مجاہدین کو وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے،ایسا ہی ایک دلیر سورما ہے شہید شیرعلی خاں آفریدی جس کے ہاتھوں برطانوی ا نڈیا کے چوتھے وائسرائے لارڈ میؤ کاقتل رونما ہوا تھا۔ آج اس کی شہادت کو 150؍سال مکمل ہو چکے ہیں، مگر پورے ملک میں سناٹا طاری ہے،ہندو ستان کے طول وعرض میں سب سے زیادہ مظلوم انقلابی اگر کوئی ہے تو وہ یہی ہے، کیوں کہ ہم ان کے کارنامہ کو اس طرح یا د نہ رکھ سکے جس کے وہ مستحق تھے، جبکہ ان کی قربانی تاریخ ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
شیر علی خاں آفریدی 1842ء میں ولی ساکن شمال مغربی سرحدی صوبے وادی تیراہ جمرود ضلع پشاور کے گھر پیدا ہوئے، جوانی میں قدم رکھنے کے بعد شیر علی کمشنر پشاور کے سوار اردلیوں میں بھرتی ہو گئے۔ انہوں نے بطورگھوڑ سوار میجرہیو جیمز اور رینیل ٹیلر کی ماتحتی میں کام کیا۔ ٹیلر ان سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے شیر علی کو ایک گھوڑا، ایک پستول اور ایک سر ٹیفکیٹ انعام میں دیا۔
شیر علی خاں کے خانوادے میں دشمنی چلی آرہی تھی، انہیں ایک بار اطلاع ملی کہ ان کے دشمنوں میں سے ایک حیدر پشاور آیا ہوا ہے تو انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر آڑوؤں کے ایک باغ میں اسے ہلاک کر دیا۔ ان پر قتل کا مقدمہ قائم ہوااور2؍اپریل 1867ء کو عدالت نے پھانسی کا حکم سنادیا گیا، چونکہ وہ کمپنی ملازم تھے اور جنگ امبیلہ میں بھی شریک رہے تھے،لہٰذا ملزم کی انگریزوں کے تئیں خدمات اور رینیل ٹیلرکی سفارش کے بعد کرنل پلاک نے سزائے موت کالے پانی میں بد ل دی۔
انہوں نے انگریزی جج کی تخفیف ِسزا کو ناانصافی تصور کیا،کیونکہ ان کے نزدیک حبس دوام بعبور دریائے شورتِل تِل مرنے کا نام جبکہ سزائے موت ایک اعزاز۔ شیر علی نے عدالت سے کہا کہ انہیں ماضی کی خدمات کے مدنظر کالے پانی کی نہیں، بلکہ موت کی سزا دے دی جائے،جب یہ بتایا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے تو، انہوں نے طیش میں آکر کہا: آپ نے مجھے ایک بار سنا، تم اور میری قوم مجھے ایک بار پھرسنے گی۔
الغر ض انہیں مئی 1869ء میں جز ائر انڈمان نکوبار بھیج دیا گیا جہاں اس وقت انڈمان کی اوپن جیل میں تحریک آزاد ی کے سرکردہ رہنما جعفر احمد تھانسیری، مولوی حکیم عبدالکریم (انبالہ)، مولانا علاء الدین (حیدر آباد) مولانا احمد اللہ صادق پور ی(پٹنہ)، مولوی امیر الدین (مالدہ)،مولوی لیاقت علی الٰہ آبادی اور مفتی عنایت احمد کاکوروی وغیر ہ جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں سزا کاٹ رہے تھے،مگر وہ یہاں بھی اپنے مشن سے غافل نہیں تھے۔ انہوں نیشیر علی کی ایسی ذہن سازی کی کہ ان کا نصب العین ہی بدل گیا۔انہوں نے اپنا ماضی پیچھے چھوڑتے ہوئے ازسِر اپنا جائزہ لیااور اعلیٰ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے خودکو و جیہہ اور منکسر مزاج شخصیت کاپیکر ثابت کرنے کی غرض سے تین برس تک اکثرروزے رکھے۔ نیز اپنا حسن اخلاق اورچال چلن بھی اچھا رکھا،تنخواہ اور مزدوری سے جوکچھ بچتا رہتا،مہینے دومہینے کے بعد اس کا کھانا پکا کر مسکینوں میں تقسیم کردیتا۔ جس سے متاثر ہوکر جیل حکام نے شیر علی خاں کو ٹکٹ چھٹّی قیدی کا درجہ عطا کردیا اور بارک میں مشقّتی قیدیوں کی حجامت کاکام کرنے کی اجازت دے دی، جس سے انہیں بغیر روک ٹوک تمام جزیروں میں آمدورفت کی سہولت حاصل ہو گئی،یہاں تک کہ ان کی سرگرمیوں پر بھی نگرانی چھوڑ دی گئی۔اسی اثنا میںانہیں گھر سے ایک خط ملا،جس میں عبداللہ پنجابی کی پھانسی کا بھی تذکرہ تھا، جسے پڑھ کر شیرعلی خاں کی رگوں میں آزادی کا طوفان موجیں مارنے لگا، وہ برصغیر کو جلد ازجلد انگریزوں سے پاک کرنے کے لیے بے کل ہوگئے۔جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے کسی یورپی اعلیٰ عہد ے دار کو قتل کرنے کے کا مصمم ارادہ کر لیا،لیکن انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا کیونکہ چوتھے وائسرائے لارڈ میؤ کمشنر اسٹوارٹ کی مخلصانہ درخواست پر 8 ؍فروری صبح 8 ؍بجے پورٹ بلیر ساحل پر اترے۔ چیف کمشنر نے ان کی حفاظت کے پیش نظر کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
ایک جانب وائسرائے کا سرخ کالین پر والہانہ استقبال کیا جارہاتھا تو دوسری طرف شیرعلی خاں اپنے حدف پہ نشانہ لگانے کے لیے بے چین ہورہے تھے۔انہوں نے سبزی کاٹنے والی چھری کی دھار مزید تیز کی اور اپنے شکار کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن شیر علی جس ہوپ ٹائون جزیرہ میں زندگی کے شب وروز گزا ررہے تھے وہ وا ئسرائے کے سرکاری دورے میں شامل ہی نہیں تھا۔چناں نچہ انہوں نے ہوپ ٹائون سے راس جزیرہ پر جانے کے لیے جی توڑ کوشش کی جہاں لارڈ میؤ قیام پذیر تھے، مگر ناکام رہے۔
وائسرائے کا دورہ طے شدہ وقت سے پہلے پور ا ہوگیا تو انہوں نے ہوپ ٹائون میں واقع مائونٹ ہریٹ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن ذاتی سکریٹری میجر او۔ٹی۔برن اور چیف کمشنر اسٹوارٹ نے غیر وقت ہونے کے سبب ان سے بارہا گزارش کی کہ وہ آج وہا ں نہ جائیں بلکہ اگلے روز سیر کریں مگر انہوں نے کسی کی نہ سنی تو ان کے پہنچنے سے پہلے فی الفور مزید ایک اور دستہ بھیج دیا گیا۔وائسرائے نے اس حسین وادی میں تقریباً پندرہ منٹ گزارے،وہ غالباًشام 7بجے واپسی کے لیے پہاڑی سے اترے۔لارڈ میؤ کے دائیں جانب ان کے پرائیوٹ سیکریٹری میجر او۔ٹی۔ برن تھے اور بائیں جانب انڈمان کے چیف کمشنر اسٹیورٹ تھے۔ لارڈ میؤ کشتی پر سوار ہونے ہی والے تھے کہ ان کی ایماپر اسٹیورٹ محافظوں کو تلقین کرنے کے لیے ذرا ہٹے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر پلک جھپکتے ہی شیر علی نے لارڈ میؤ کو شیر کی طرح د بوچ لیا۔ جب تک ان کا حفاظتی عملہ حرکت میں آتا تب تک وہ اپنا کام انجام دے چکے تھے،لیکن مرد آہن نے بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی،ان کو انگریزی فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
وائسرائے کو چھری کے دو گہرے زخم لگے تھے،مگر انہوں نے اپنے پورے ہوش و حواس کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں نے مجھ پر وا ر کیا ہے لیکن میں ٹھیک ہوں زیادہ چھوٹ نہیں لگی۔وائسراے کو گاڑی پر بٹھا دیا گیا جو پل پر کھڑی تھی۔اس وقت دیکھاکہ ان کی پشت پر کوٹ کٹ کر ایک چھید ہوگیاجس میں سے پرنالے کی طرح خون بہتاہے۔اسے رومالوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی۔وہ ایک دو منٹ تک چپ چاپ بیٹھے رہے۔پھر ان کے پائوں لڑکھڑائے اور پیچھے کی طرف گر پڑے۔ آہستہ سے کہا میرا سر اوپر اٹھائو ساتھ ہی ختم ہوگئے۔
ایک قیدی کے ہاتھوں وائسرائے کے قتل نے وہاں پر موجود تمام برطانوی حکام کے ہوش فاختہ کردیے۔مگر موت پر کس کا بس چلا ہے۔ کچھ دیر بعدشیر علی کو بھی اسی جہاز پر لایا گیاجس پر لارڈ میؤ کی میت رکھی گئی تھی، خارجہ سیکریٹری نے شیر علی سے پوچھا کہ اس نے اتنا بڑ ا کام کس کے اشارے پرکیا اور اس سازش میں کون کون افراد اس کے معاون تھے۔ تو شیر علی نے شیر کی طرح گرجتے ہو ئے کہا کہ:میں نے خدا کے حکم سے کیا ہے، خدامیرا شریک ہے۔
اگلے روز یعنی 9 ؍فروری1872ء کو وائسرائے کی نعش کو ان کے جنگی جہاز گلاسکو پر ہی سر کاری اعزاز دیا گیا۔ معمول کے مطابق پہلے مجسٹریٹ پور ٹ بلیرٔ میجرا یف۔ ایل۔ پلے فلیرکے ذریعہ مجسٹریٹی انکوائری ہوئی۔ سہ پہر میں میجر جنرل اسٹورٹ کی سیشن عدالت نے سماعت کا آغاز کیا۔اس کیس میں بارہ گواہوں نے شہادت دی۔حسب توقع جج نے اسی دن سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔
جب شیر علی خاں آفریدی کو مورخہ11 مارچ 1872ء بمقام ویپر سولی پر چڑھایا گیا تووہ بالکل ہراساں نہ تھے۔ انہوں نے دلیری سے کہا کہ: میں نے جب اس کام کا ارادہ کیا تھا تو اپنے تئیں پہلے سے مردہ سمجھ لیا تھا۔ اگر میں اپنے تئیں مردہ نہ سمجھ لیتا تو وہ کام ہرگز مجھ سے صادر نہ ہو سکتا اور پھر کہا کہ مسلمان بھائیومیں نے تمہارے دشمن کو مارڈالا اب تم شاہد رہو کہ میں مسلمان ہو ں اور کلمہ پڑھا دو دفعہ کلمہ ہوشیاری سے پڑھا تیسری بار پھانسی کی رسی سے گلا گھٹ کر پورا کلمہ ادا نہ ہوا۔
شیر علی نے جو حیر ت انگیز کارنامہ انجام دیا،اس نے تحریک جدوجہد کے شعلوں کو کبھی سرد نہیں پڑے دیا۔
حوالہ جات:
1۔ محمد شاہد صدیقی علیگ( ڈاکٹر)، جنگ آزادی کے سرخیل، عفیف پرنٹرس دہلی، 2013ئ، صفحہ169
2۔ Sir William Wilson HunterThe Earl of MayoClarendon Press London 1891 P. 200
3۔ محمد شاہد صدیقی علیگ( ڈاکٹر)، گم نام مجاہد آزادی: شیر علی خاں آفریدی،آل انڈیا اردو تعلیم گھر لکھنؤ، 2021ء صفحہ40
4۔ Charles Allen,God's Terrorists The Wahhabi Cult and the Hidden Roots of Modern Jihad,Little Brown London 2006 Page 198
5۔ ایم۔احمد مجتبیٰ، جزائر انڈمان ونکو با ر ماضی تاحال، انشاء پبلی کیشنز کلکتہ، 2016ئ، صفحہ353
6۔ اسیرادروی،تحریک آزادی اورمسلمان، ا دارالمؤلفین،دیوبنداپریل2002ئصفحہ 53تا54
7۔ Sir William Wilson HunterThe Earl of MayoP. 194
8۔ مولوی محمد جعفرتھانیسری، تواریخ عجیب یعنی کالاپانی، پاکستان سلمان اکیڈمی کراچی،ستمبر 1962 ئ،صفحہ170تا171
9۔ محمد شاہد صدیقی علیگ( ڈاکٹر)، گم نام مجاہد آزادی شیر علی خاں آفریدی، صفحہ 83
10۔ ایضاً صفحہ 85
11۔ ایضاً صفحہ 86
12۔ محمد شاہد صدیقی علیگ( ڈاکٹر)، جنگ آزادی کے سرخیل، صفحہ179
13۔ مولوی محمد جعفرتھانیسری، تواریخ عجیب یعنی کالاپانی، صفحہ171تا172
14۔ محمد شاہد صدیقی علیگ( ڈاکٹر)، گم نام مجاہد آزادی شیر علی خاں آفریدی، صفحہ 82تا83
15۔ مولوی محمد جعفرتھانیسری، تاریخ عجیب یعنی کالاپانی، قلمی نسخہ پور ٹ بلیرٔ 1879 ئ،صفحہ78
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔