اعداد و شمار کے ’کھیل‘ نے مودی حکومت کی قلعی کھولی، 70 لاکھ ملازمتیں ہوئیں کم
وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت نے صرف2017 میں ہی 1.28 کروڑ روزگار پیدا کئے ہیں۔
نئی دہلی:ملک میں روزگارکے بحران کولے کر مرکزکی مودی حکومت مسلسل سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ملک میں ملازمتوں میں اضافہ ہوا ہے یا پہلے سے کم ہوئی ہیں،اس کولے کرتصویرصاف نہیں ہے۔حکومت کی طرف سے آ ئے دن ا لگ ا لگ اعدادوشمار کاحوالہ دے کرملازمتیں بڑھنے کے دعوے کئے جاتے ہیں مگرحقیقت کچھ اورہی ہے۔ وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت نے صرف2017 میں ہی 1.28 کروڑ روزگار پیدا کئے ہیں۔ وہیں غیرسرکاری تنظیم عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹرفارسسٹنبیل امپلائمنٹ کی حالیہ رپورٹ نے سنسنی خیزانکشاف کرتے ہوئے حکومت کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔حکومت کےدعوؤں کے برعکس اس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 2015 کے پہلے تین سال کے دوران تقریبا 70 لاکھ ملازمتیں ختم ہوگئیں۔
جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) بھی بڑے پیمانے پر ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے سامنے سب سے بڑا بحران روزگار کا ہی ہے۔ ملک کی کل بے روزگاری شرح کے مقابلے گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اوراس سے اوپر کی تعلیم حا صل کرنے والے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 6 گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کی شرح کے باوجود ملازمتوں کی تخلیق نہیں کی جا رہی ہے۔ 2011 سے 2015 تک اقتصادی ترقی کی شرح 6.8 فیصد تھی لیکن روزگار میں صرف 0.6 فیصد کااضافہ ہوا۔ اگر 70 اور 80 کی دہائی سے موازنہ کیا جائے توحالات بہترنظر آتے ہیں۔ اس دوران جی ڈی پی کی ترقی 3 سے 4 فیصد تھی اور روزگارمیں سالانہ اضافے کا اندازہ 2 فیصد کے اوپرتھا۔ آج کے مقابلے میں یہ تین گنا زیادہ ہے۔
بے روزگار زمرے میں شامل ایک طبقہ 15 سال سے زائدعمرکے ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے پاس چھ ماہ سے کوئی روزگار نہیں ہے۔ اس طبقے میں 2015 میں بے روزگاری کی شرح 5 فیصد تھی جو گزشتہ 20 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ 2011 میں قومی نمونہ سروے کے مطابق یہ شرح 2.7 فیصد تھی اور لیبر بیورو کے حساب سے 3.8 فیصد تھی۔ سینٹرفارمانیٹرنگ انڈین اکونامی(سی ایم آئی ای) کی مارچ2018 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں تین کروڑسے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ سی ایم آئی ای کی رپورٹ کی مانیں تو2016 سے 2017 کے درمیان روزگار کی کمی کا اندا زہ مزید کم ہوسکتا ہے۔ صرف نوٹ بندی کے دوران ہی تقریباً 35 لاکھ ملازمتیں ختم ہوئی تھیں۔ ایس ایم ای کے شعبے میں 35فیصد سے 50 فیصدتک ملازمتیں کم ہوئیں۔
سی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2015 کے درمیان بے روزگاروں کی لیبرفورس میں سب سے بڑی حصہ داری 15 سے29 سال عمر والے نوجوانوں کی تھی۔ اس عمر کے گروپ میں 4 کروڑ نوجوان آتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس دوران تقریباً ڈھائی کروڑ افراد ایسے تھے جو چھ ماہ سے ملازمت کی تلاش میں تھے۔ ان میں سے 90 لاکھ افراد گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور اس سے اوپرکی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے۔ بے روزگاروں کی اس تعدادمیں 60 فیصدلوگوں کی عمر 15 سے25 سال ہے۔ ان میں بھی 60 فیصد مرد ہیں۔
2019 کے انتخابات کی وجہ سے جاری نہیں ہورہے اعداد و شمار!
روزگارکے سہ ماہی اعدادوشمارکوکافی قابل اعتماد مانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ حکومت کے مخالفین بھی ان اعداد و شمار کو قابل اعتبار مانتے ہیں۔ان میں پچھلی سہ ماہی کے اعداد و شماربتائے جاتے ہیں لیکن اس سال ابھی تک حکومت نے ان اعداد و شمار کوجاری نہیں کیا ہے۔روزگارکے سہ ماہی اعدادوشمار کی دو رپورٹ ابھی تک زیر التواء ہیں۔سالانہ روزگار،بے روزگارسروے کی 2016-17کی رپورٹ 18 ماہ سے جاری نہیں کی گئی ہے۔اس سے پہلے 2015-16کی رپورٹ ستمبر 2016 میں شائع کی گئی تھی۔2014-15میں کوئی بھی رپورٹ شائع نہیں کی گئی تھی۔کئی ماہرین کے مطابق بے روزگاری میں حیران کن طورپر اضافہ ہوا ہے لیکن 2019 میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظرحکومت ان اعداد و شمار کو جاری رکھنے سے کترا رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔