نفرت نہیں بلکہ محبت والے ملک کی پہچان ہونا چاہئے
حکومت اور اس کی قیادت کو چاہئے کہ وہ کسی بھی طرح اس بڑھے ہوئے درجہ حرارت کو نیچے لائے اور اس کے لئے اسے کوئی لمبی چوڑی کارروائی نہیں کرنی پڑے گی، صرف ان خلاف ورزیوں کے خلاف قومی سطح پر بولنا پڑے گا
ہریانہ میں پہلے گائے کی حفاظت کے نام پر ہجومی تشدد میں اقلیتی طبقہ کے ایک شخص کو ہلاک کر دیا گیا پھر خبر آئی کہ گائے کی حفاظت کے نام پر ایک اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ طالب علم کو ہلاک کر دیا گیا۔ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہلاک ہونے والے کو غریب مزدور کہا گیا اور رپورٹ میں کہا گیا کہ گائے کی حفاظت کرنے والوں نے اس کو ہلاک کر دیا لیکن جب اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ طالب علم کی ہلاکت کی خبر آئی تو اس میں رپورٹ میں لکھا گیا کہ گائے کی حفاظت کرنے والوں نے ایک نوجوان کو غلطی سے گائے کا اسمگلر سمجھ کر ہلاک کر دیا۔
رپورٹنگ سے لے کر ہر محاذ پر اگر یہ تفریق برتی گئی تو مستقبل کے ہندوستان پر لوگ سوال اٹھاتے رہیں گے۔ قانون کی حمایت اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ جب تک ایک ہندوستانی کی طرح برتاؤ نہیں کیا جائے گا تو پھر قانون اور اس کے محافظوں پر سوال اٹھتے رہیں گے۔ یہ صرف گائے کی حفاظت سے جڑا ہوا مسئلہ نہیں ہے اور اس کا تعلق صرف شمالی ہندوستان تک محدود نہیں ہے اگر عوام کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ ان کے لئے قانون کچھ اور ہے اور دوسروں کے لئے کچھ اور ہے تو پھر سوال اٹھنے لازمی ہیں۔
اقلیتی فرقہ کو یہ احساس رہا ہے کہ آزادی کے بعد سے اس کے ساتھ تفریق برتی جاتی رہی ہے اور ملک میں بہت سے فرقہ وارانہ فساد ہوئے لیکن ان میں اس احساس نے کبھی گھر نہیں کیا کہ ان کے اپنے خلاف ہونے والی کسی کارروائی کے خلاف وہ آواز نہیں اٹھا سکتے۔ ان کو یہ خیال ستانے لگا ہے کہ چاہے بلڈوزر کی کارروائی ہو، چاہے فرضی انکاؤنٹر، چاہے لو جہاد کا مسئلہ ہو، چاہے گائے کی حفاظت کے نام پر ہلاکت کا معاملہ ہو سب میں ان کے خلاف تفریق کیوں برتی جا رہی ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات گھر کرنے لگی ہے کہ یہ جتنی کارروائی ہوتی ہیں اس میں ان کو ہی نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔
حکومت اور اس کی قیادت کو چاہئے کہ وہ کسی بھی طرح اس بڑھے ہوئے درجہ حرارت کو نیچے لائے اور اس کے لئے اسے کوئی لمبی چوڑی کارروائی نہیں کرنی پڑے گی، صرف ان خلاف ورزیوں کے خلاف قومی سطح پر بولنا پڑے گا اور کچھ فیصلے لینا پڑیں گے اور غلط کو غلط کہنا پڑے گا۔ اگر کہیں کسی کے خلاف بلڈوزر کی کارروائی محض اس کے کسی خاص طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہوتی ہے تو اس کے خلاف بولنا پڑے گا، اگر کسی کو گائے کی حفاظت کے پر ہلاک کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھانی پڑے گی، اگر لو جہاد جیسے الفاظ کے استعمال پر روکنے کے لئے کہنا ضروری ہو تو کہنا پڑے گا اور اگر کسی شخص کے خلاف کوئی فرضی انکاؤنٹر کی خبر سامنے آتی ہے تو اس کی تحقیقات کے لیے حکم دینا پڑے گا۔ صرف ایسا کرنے سے ہی نہ صرف ملک کا ماحول بہتر ہو جائے گا بلکہ کسی طبقہ کے اس احساس کو کم کرنے میں مدد ملے گی کہ سرکاری کارروائیوں میں ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سماج کے کسی بھی طبقہ میں یہ بات ذہن میں گھر نہیں کرنی چاہئے کہ ان کو سماج سے علیحدہ کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک کی ترقی جب ہی ممکن ہے جب سب ساتھ مل کر ملک کی ترقی کے لئے کام کریں گے۔ حکومت کو اس سمت کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں اتحاد بڑھے۔ اگر اقتدار کی حصولی کے لئے لوگوں میں تقسیم اور تفریق کی بات ہوگی تو ملک کبھی ترقی نہیں کر پائے گا۔ حکومت نے اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو پھر یہ غلطی بھی ہوتی رہے گی کہ گائے کے اسمگلر کے نام پر اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والا 19 سالہ طالب علم ہلاک کر دیا جائے۔ اس ملک کی دنیا میں مثال نفرت والا نہیں بلکہ محبت کرنے والے ملک کی ہونی چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔