ندائے حق: آزادی کا امرت مہوتسو...اسد مرزا

”ہندوستان اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے۔ یہ ایک صحیح موقع ہے مختلف سیاسی جماعتوں اور قوموں کو اپنا محاسبہ کرنے کا کہ ان سے گزشتہ 75 سالوں میں کہاں اور کیا غلطیاں ہوئیں“

آزادی کا امرت مہوتسو
آزادی کا امرت مہوتسو
user

اسد مرزا

15 اگست 2022: ہندوستان اور ہندوستانیوں نے گزشتہ 75 سالوں کے دوران جمہوریت کے راستے پر ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ ہمارے پاس اپنے ملک اور اس کی کامیابیوں پر فخر کرنے کی ہر وجہ ہے۔ موجودہ حکومت نے آزادی کے 75 سال کو ”امرت مہوتسو“ کے طور پر منانے کے لیے ملک بھر میں بڑے پروگراموں کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنی جماعت یعنی بی جے پی کی تشہیر بھی کررہے ہیں جبکہ جنگِ آزادی میں نہ تو بی جے پی اور نہ ہی اس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا کوئی کردار رہا ہے۔

موجودہ حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت اس وقت محاصرے میں ہے۔ وہ مزیدکہتے ہیں کہ بڑے بین الاقوامی ادارے جو مختلف ملکوں میں جمہوریت پر نظر رکھتے ہیں، ان کی رپورٹوں کے مطابق ہندوستانی جمہوریت شدید تنزلی کا شکار ہے، یا یہ کہ ہندوستان کے اب جمہوری ملک نہ رہنے کے امکانات قوی ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا مبینہ طور پر دعویٰ ہے کہ بھارتی جمہوریت کے معیار میں گراوٹ صرف 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دوبارہ انتخاب کے بعد سے تیز ہوئی ہے۔

الزامات کی فہرست

ناقدین یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ بی جے پی کی طرف سے شروع کی گئی سوشل انجینئرنگ کی وجہ سے، تاریخی طور پر مظلوم بہوجن (پسماندہ) طبقات جو ایک اچھے ہندو کی شبیہ کے مطابق نہیں تھے،ان کو ہندو سماج میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ساتھ ہی مذہبی اقلیتوں کو حاشیہ پر لانے کے پروگرام بہت تیز ہوچکے ہیں۔


ان کا الزام ہے کہ موجودہ حکومت لبرل اور بائیں بازو کے کارکنان، ماحولیات اور انسانی حقوق کے مسائل اٹھانے والے کارکنان کو مختلف الزامات کے ذریعے ملک کے ”اندرونی دشمنوں“ کی فہرست میں شامل کیاجارہاہے۔

وہ یہ کہتے ہوئے سخت رویہ اختیار کرتے ہیں کہ سرکاری احکامات کے ذریعے اختلافِ رائے کو مسلط کیا جارہاہے۔ پرانے مذہبی تنازعات جیسے متھرا اور وارانسی میں مندروں اور مساجد کو لے کر دوبارہ منظرِ عام پر لائے جارہے ہیں، اور یہ دعوے کہ مسجدیں مندروں کے انہدام کے بعد اسی جگہ بنائی گئیں تھیں، ان کو تقویت دی جارہی ہے۔

وہ مزید الزام لگاتے ہیں کہ ہندوستان کی متنوع برادریوں کے ساتھ مل کر بنے ہوئے سماجی تانے بانے کو توڑا جا رہا ہے اور نئے مذہبی تنازعات شروع کیے جارہے ہیں۔

مودی کے ماتحت ہندوستان

حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کو تمام جمہوریتوں کی ماں کے طور پر سراہتے ہوئے، شراکتی فیصلہ سازی اور چیک اینڈ بیلنس کی ملک کی وراثت پر زور دیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایک دوسرا بیانیہ پیش کرنے میں بھی جٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاہم، تنقید اور اختلاف کے یہ سارے شور ایک سوال پیدا کرتے ہیں۔ اگر بی جے پی اور مودی کے خلاف یہ تمام الزامات درست ہیں تو پھر ہندوستان کی دوسری سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کے اس بلڈوزنگ کو روکنے اور ان طریقوں اور منصوبوں کو اپنانے میں کس نے روکا تھا، جس نے بی جے پی کو ایک ایسی پارٹی بنا دیا ہے جو وہ آج ہے۔


ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی مفاد پرست گروہوں کو متحرک کرنے اور بوتھ مینجمنٹ کی کوششوں کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئی ہے، جس میں اس کا ساتھ ذرائع ابلاغ، عدلیہ اور دوسرے حکومتی اداروں نے بھی دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی 28 میں سے 18 ریاستوں میں برسرِ اقتدار ہے، اور اس کے پارلیمنٹ میں 400 سے زیادہ ممبران ہیں، اور ریاستی اسمبلیوں میں 1,300 قانون ساز موجود ہیں۔جبکہ 1990کی شروعات میں یہ تعداد صرف 5تھی۔دراصل کوئی بھی سیاسی پارٹی چلانا آج کے دور میں ایک سیاسی فن کے علاوہ آپ کی مینجمنٹ کی ماہرانہ صلاحیت اور عوام کی ذہنی حالت کو اپنے تئیں موڑنے سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اس میں سیاسی خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اگر دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کا مقابلہ کریں، تو اس کی محتاط اور ہوشیاری سے بنائے گئے منصوبے اپنے کیڈرز کو منظم کرنے اور ان پر عمل درآمد کے نتیجے میں یہ فتوحات اسے حاصل ہوئی ہیں، جب کہ ہندوستان کی سب سے پرانی سیاسی جماعت یعنی انڈین نیشنل کانگریس 2014 کے انتخابات سے بہت پہلے ہی اس سیاسی شطرنج میں ہار چکی تھی۔ دراصل INC نے رائے دہندگان کو اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا۔ پارٹی کی نوجوان ابھرتی ہوئی قیادت کو پرانے شہنشاہوں نے سائیڈ لائن کر دیا تھا، قانون سازی اور زمینی سطح پر اس کی پارٹی کا انتظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا۔ میں نے خود یوپی میں 2014 سے پہلے کے 2 عام انتخابات دیکھے ہیں، جہاں بوتھ کی سطح پر پارٹی کے پاس ووٹروں کا انتظام کرنے کے لیے کوئی پولنگ ایجنٹ یا بوتھ مینیجر دونوں موجود نہیں ہوتے تھے۔

اس سے پہلے کمیونسٹ بھی اس بازی کو مکمل طور پر کھو چکے تھے۔ ان کا راستہ کم و بیش ہندوستانی معیشت کے عروج سے جڑا ہوا تھا جب ہندوستان نے اپنی معیشت کو کھولا اور مارکیٹ میں اصلاحات شروع ہوئیں۔ متوسط طبقے کے پاس اب زیادہ سے زیادہ اشیائے خوردونوش تک رسائی تھی اور وہ زیادہ شاہانہ طرز زندگی کی خواہش رکھتے تھے مظاہروں اور تحریکوں کی سیاست کی جگہ۔

جہاں تک ہندوستان کی اقلیتوں اور خاص طور پر سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کا تعلق ہے، تو وہ خود اپنی پریشانیوں اور زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں۔دراصل ایسا لگتا ہے کہ آزادی کے بعد مجموعی طور پرمسلم قوم ایک خول میں سمٹ گئیتھی،کیونکہ اسے ہندوستانی مرکزی دھارے کے حصے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا،اور نہ ہی وہ خود اس میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتی تھی۔ اس کے نام نہاد رہنما پوری قوم کو ایک ووٹ بینک کے طور پر پیش کرکے اور اس کے ٹھیکیدار بن کر قوم کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کرتے نظر آتے رہے ہیں۔

اگر بی جے پی کے سیاسی ناقدین بی جے پی کی طرف سے بنائی گئی نام نہاد سوشل انجینئرنگ پر سوال اٹھاتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے پیغام رسانی کواور ذرائع ابلاغ کو پارٹی کے فائدے کے لیے استعمال کرنے اور غلط بیانیے بڑھانے میں کامیاب نظر آتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کو یہ سب حربے استعمال کرنے سے کس نے روکا تھا۔


ایک انٹرویو میں سماجی مورخ، کالم نگار، اور جی بی پنت سوشل سائنس انسٹی ٹیوٹ، الہ آباد میں پروفیسر بدری نارائن نے بی جے پی کے کام کرنے کے انداز کے بارے میں ایک دلچسپ تجزیہپیش کیا ہے،ان کے بقول: کہیں بھی بی جے پی جیسی کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے، جو دو سال پہلے انتخابات کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے کے لیے بھی کام کر تی نظر آئے یعنی کے ایک وقت میں دو مہم پر ثابت قدمی سے کام کرتے ہوئے۔ یعنی کہ ہر لحاظ سے وہ ایک بڑی سیاسی مشین ہے نہ کہ سیاسی جماعت۔

لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کی سینئر ماہر تعلیم اور محقق منیشا پریم کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی ایک نظریاتی پارٹی سے زیادہ ایک انتخابی پارٹی بن چکی ہے۔ اسی لیے وہ ہر الیکشن کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے، اور اس میں ہار جیت کو اپنے وقار کا معاملہ بنا لیتی ہے۔

مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ دوسری سیاسی جماعتوں کو اسی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کو اپنانے سے کس نے روکاتھا؟ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرپائے تو وہ خود قصور وار ہیں، دوسرا کوئی نہیں۔ماتم کرنا بند کردینا چاہیے، اپنے مقصد کو ایک ساتھ مل کر حاصل کرنا چاہیے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں ایک نئی حکمت عملی اور سیاسی عمل کے ساتھ ہندوستان کو دوبارہ اس کی جمہوری قدریں واپس کرانے میں گامزن ہوں تو یقینا وہ اس مہم میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔