اپنی گردن بچائے رکھنے کے لئے غزہ میں جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں نیتن یاہو... عبید اللہ ناصر

عالمی برادری میں فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے، جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خود اپنے ملک میں زبردست مخالفت کا سامنا کر ر ہے ہیں۔ ان کے وزیر دفاع بھی ان کے جنگی جنوں کی سخت مخالفت کر چکے ہیں

<div class="paragraphs"><p>نیتن یاہو/ تصویر یو این آئی</p></div>

نیتن یاہو/ تصویر یو این آئی

user

عبیداللہ ناصر

مغربی ایشیا میں اس وقت زبردست سیاسی اور اسٹریٹجک اتھل پتھل جیسا ماحول ہے اس کے کئی زاویے اور نکات ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی اندرون ملک مخالفت بڑھتی جا رہی ہے ۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ جب تک غزہ میں جنگ چل رہی ہے تبھی تک ان کی گردن بچی ہوئی ہے اور جیسے ہی جنگ ختم ہوگی ان پر بد عنوانی کے الزام میں مقدمہ چلے گا اور باقی زندگی جیل میں گزارنی پڑ سکتی ہے۔ ادھر عالمی عدالت میں ان پر نسل کشی کا مقدمہ چل ہی رہا ہے اور ان کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری ہو چکا ہے ۔ دوسرا اہم نکتہ ہے امریکہ کا ، سعودی عرب پر دباؤ ہے کہ وہ جلد از جلد اسرائیل سے سفارتی رشتہ قائم کرے تاکہ مجوزہ انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور کی تعمیر شروع ہو۔ یہ کوریڈور ہندوستان سے شروع ہو کر مغربی ایشیا ہوتا ہوا یورپ تک جائے گا۔ یہ در اصل چین، پاکستان، ایران اور خلیجی ملکوں تک بن رہے مجوزہ کوریڈور کے جواب میں اور چین کے مغربی ایشیا میں بڑھتے اثرات کو روکنے کی امریکی حکمت عملی ہے مگر سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان کھلے عام اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مذکورہ پیغام لے کر ان سے ملاقات کرنے والے تین امریکی قانون سازوں سے سلمان نے صاف کہہ دیا کہ جب تک مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل نہیں نکل آتا ، تب تک اسرائیل سے تعلقات استوار کرنا ان کے لئے ناممکن ہے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو انہیں انور سادات کی طرح موت کے گھاٹ بھی اتارا جا سکتا ہے ۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ، عرب ملک اور دیگر ممالک بھی اسرائیل پر ایران کے ممکنہ حملے اور اس کے عوامل سے پریشان ہیں ۔ قطر میں غزہ میں جنگ بندی کے لے کر جو گفتگو چل رہی ہے اس کے مد نظر قطر ، مصر اور دیگر ملکوں نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لی۔

اپنے ہی گھر میں اپنے معزز مہمان کے قتل پر عالمی برادری ایران کو بڑی بے شرمی سے صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کر رہی ہے ۔ منافقین کی اس صف میں امریکہ اور یورپ کے ملک ہی نہیں نام نہاد مسلم اور عرب ملک بھی شامل ہیں ۔ قطر میں ہوئی حالیہ کانفرنس میں جس کے داعی مصر ، قطر اور دیگر عرب ملک ہیں، انہوں نے ایران سے اپیل کی ہے کہ چونکہ اسرائیل سے جنگ بندی کی گفتگو جاری ہے ، جس کے کامیاب ہونے کے امکان روشن ہو رہے ہیں ، اس لئے وہ اسرائیل پر حملہ سے اجتناب کرے ۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس پہلے ہی ایران سے یہ اپیل کر چکے ہیں ۔ یہ بالکل ویسا ہے جیسے محلے کے دو لڑکوں میں لڑائی ہو اور بیچ بچاؤ کرنے والے لوگ ایک لڑکے کا ہاتھ پکڑ لیں کہ مار پیٹ نہ کرو اور دوسرا لڑکا اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے لڑکے کو لہو لہان کر دے ۔ اسرائیل غزہ میں قریب 40 ہزار بےگناہ عورتوں بچوں بوڑھوں مردوں نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ غزہ کو اس نے قبرستان اور کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ عالمی برادری بشمول مسلم اور عرب ملک بےشرمی سے یہ نسل کشی یہ قتل عام دیکھتے رہے اور جنگ بندی کے لئے زبانی جمع خرچ کرتے رہے لیکن نیتن یاہو کے پاگل پن اور اس کے خون کی پیاس کو روکنے کی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ۔ غزہ ہی نہیں اسرائیل ایران پر بھی جب چاہتا ہے کارروائی کر دیتا ہے ۔ اس نے ایران کے نہ جانے کتنے بڑے سائنسدانوں اور فوجی افسروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کے ایک معزز مہمان اسماعیل ہنیہ کو بھی نہیں بخشا ۔تازہ اطلاع یہ ہے کہ اس نے ایران کے بینکنگ نظام کو بھی ہیک کر کے چند گھنٹوں کے لئے موقوف کر کے اپنی تکنیکی برتری ظاہر کر دی ہے۔ ایران کی اٹیمی تنصیبات بھی اس کے نشانہ پر ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ کسی دن یہ خبر آ جائے کہ اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دیں ۔ ایران کو اگر اسرائیل سے لڑنا ہے تو اسے اپنی تکنیکی مہارت ، خفیہ نظام وغیرہ کو اس سے بہتر نہیں تو کم سے کم اس کی ٹکر کا بنانا ہی ہوگا۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذرا سی بھی لاپروائی اور کوتاہی بڑی تباہی کی وجہ بن سکتی ہے۔


لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو دنیا سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ حماس حزب اللہ اور حوثی جنگجوؤں نے اسرائیل کے نادر تک گھس کر وار کئے ہیں۔ غزہ میں حماس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں۔ اسرائیل جس جنگ کو چند دنوں میں ہی ختم کر دینے کی سوچ رہا تھا ، وہ جنگ دسویں مہینہ میں داخل ہو چکی ہے اور امریکہ تک نے اعتراف کیا ہے کہ حماس کو نیست و نابود کرنے کا نیتن یاہو کا منصوبہ شرمندہ تعبیر نہیں ہو پا رہا ہے ۔ فلسطینی جانباز اپنے سروں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ ہر موت ان کے جذبہ حریت اور ایمان کو تقویت دے رہی ہے۔

ویسے ایران کو فلسطینی کاز کے لئے چین، روس، مشرقی کوریا جیسی ایٹمی طاقتوں کی حمایت مل رہی ہے۔ چین عالمی امور میں اپنی اہمیت بڑھانے اور امریکہ کو چیلنج دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ روس نے بھی یہ کوشش کی لیکن یوکرین سے الجھ جانے کی وجہ سے اس کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ابھی یوکرین کی افواج نے روس کے ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کر کے روس کے سپر پاور ہونے کا بھرم توڑ دیا ہے۔ روس ان علاقوں کو واپس لینے کے لیے جوابی کارروائی کر رہا ہے ، اس لئے وہ ایران کی ویسی مدد نہیں کر پا رہا جو اسے درکار ہے ۔ پھر بھی میزائلوں کی ایک بڑی کھیپ ایران پہنچی ہے۔ فلسطین کے لئے عالمی برادری میں حمایت بڑھ رہی ہے ۔ امریکہ برطانیہ فرانس ہر جگہ وہاں کے عوام فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ نیتن یاہو کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران جب وہ امریکی کانگریس سے خطاب کرنے پہنچے تو حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبروں نے ان کے خطاب کا بائیکاٹ کیا اور ایوان سے باہر ہزاروں لوگوں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا۔ نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے نیتن یاہو سے جنگ بندی کو لے کر سخت لہجہ میں بات بھی کی لیکن چونکہ وہ صدارتی چناؤ لڑ رہی ہیں اور امریکہ کی یہودی لابی کو ناراض کر کے الیکشن نہیں ہارنا چاہیں گی، اس لئے انہوں نے بہ امریکہ کا گھسا پٹا راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ہے۔ بیشک اسے اپنی دفاع کا حق ہے لیکن اپنی دفاع کے لئے اسے نسل کشی اور قتل عام کا تو حق نہیں مل جاتا۔

ایران کو فلسطینی کاز کے لئے چین، روس اور مشرقی کوریا کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ حمایت ویسی قطعی نہیں ہوگی جیسے امریکہ اسرائیل کی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جنگ میں بھی کودنے کو تیار ہے ، جبکہ مذکورہ ملک ابھی تک ایران کو ضروری اسلحہ بھی نہیں دے پا رہے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسرائیل کو کسی عالمی قانون ، کسی اخلاقی دباؤ وغیرہ سے اس پر رضا مند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عالمی قوانین کا لحاظ کرے، متحدہ اقوام کی قراردادوں کو منظور کرے اور ان معاہدوں پر ہی عمل کرے جو اس نے مرحوم یاسر عرفات کے ساتھ کئے تھے۔ اسرائیل سے صرف بزور طاقت اس معاہدہ پر عمل کرایا جا سکتا ہے اور فی الحال یہ طاقت کسی کے پاس نہیں ہے ۔ خاص کر عرب ملکوں کے پاس طاقت اور وسائل سے زیادہ غیرت اور حمیت کا فقدان ہے ۔ شاید اردن کی راجدھانی عمان میں کسی مسجد کے اما م نے جمعہ کے خطبہ میں کہا تھا کہ جب چالیس ہزار بے گناہ فلسطینیوں کی موت کا کوئی اثر نہیں ہوا تو میرے خطبہ کا کیا اثر ہوگا، صفیں درست کے نماز پڑھی جائے۔


ایک طرف عالمی برادری میں فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے ، دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو خود اپنے ملک میں زبردست مخالفت کا سامنا کر ر ہے ہیں ۔ گزشتہ کابینہ کی میٹنگ میں ہی ان کے وزیر دفا ع نے ان کے جنگی جنون کی سخت مخالفت کی اور صاف کہا کہ اتنی لمبی جنگ اور اتنے نقصان کے بعد بھی ہم حماس کے قبضہ سے اپنے شہریوں تک کو واپس نہیں لا سکے ہیں ۔ اصل میں مسلسل جنگ نیتن یاہو کی مجبوری ہے، بھلے ہی اسرائیل معاشی طور سے تباہ ہو جائے ، جیسا کی وہ ہو چکا ہے اور عالمی برادری میں الگ تھلگ پڑ جائے۔ نیتن یاہو پر بد عنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔ ادھر ان کی مقبولیت میں زبردست گراوٹ آ چکی ہے ، انتہا پسند صیہونی جماعتوں کی حمایت ہی انہیں حاصل ہے جبکہ اعتدال پسند اور بائیں بازو کی پارٹیاں ان کی شدید مخالف ہیں۔ جنگ کی وجہ سے اسرائیلیوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ وہ ہمہ وقت موت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی شہری ترک وطن کر ر ہے ہیں ۔نیتن یاہو پر عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ بھی چل رہا ہے اور ان کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری ہو چکا ہے۔ ان سب سے بچنے کے لئے وہ جنگ کو زیادہ سے زیادہ لمبا کھینچنا چاہتے ہیں۔ ان حالت میں قطر میں جنگ بندی کی جو گفتگو چل رہی ہے، نیتن یاہو کسی نہ کسی بہانے سے اسے سبوتاژ کرنا چاہیں گے۔ ان کی یہ حکمت عملی بھی لگتی ہے کہ ایران کسی نہ کسی طرح اسرائیل پر براہ راست حملہ کر دے تو پھر وہ امریکہ سے اسے بھڑا کر عراق کی طرح تباہ کرا دیں، یہی ایران کی ڈپلومیسی اور فراست کا امتحان ہے۔ اسرائیل نے جس طرح اس کے اندر گھس کر حملہ کیا ، اس کے بعد ایران کو جوابی کارروائی کا حق بھی ہے اور اپنی ساکھ بچانے کے لئے ضروری بھی، مگر جنگ کے لئے جوش اور جذبہ کے ساتھ ہوش ، حکمت عملی تیاری اور مناسب وقت کا تعین ضروری ہے۔ ایسے میں ایران کے لئے فی الحال قطر کے اجلاس کی قرار داد کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل پر براہ راست حملے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

ہو سکتا ہے اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہو جائے ۔ ہو سکتا ہے دنیا کے اس خطہ میں وقتی طور امن بھی ہو جائے لیکن جب تک فلسطینیوں کو ان کا جائز حق نہیں ملے گا، یہ خطہ آگ اور خوں سے نجات نہیں پائے گا۔ اسرائیل حماس کو ختم کرنا چاہتا ہے، وہ حماس کی قیادت کو ختم کر رہا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ قیادت پھر کھڑی ہو جائے گی۔ ایک قیادت ختم ہو سکتی ہے ایک تنظیم بھی ختم ہو سکتی ہے لیکن تحریک کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ ایک جائے گا، دوسرا آئے گا۔ لیبیا کے مجاہد آزادی عمر مختار نے اٹلی کے گورنر سے سے یہی تو کہا تھا کہ ’تم ایک ماروگے دوسرا آ جائے گا۔ پھر تیسرا ، پھر چوتھا ، یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک تم لیبیا چھوڑنے پر مجبور نہ ہو جاؤ ۔ اور یہی ہوا بھی تھا ۔ تاریخ یہی شہادت دیتی رہی ہے اور آئندہ بھی دیتی رہے گی۔ اسرائیل اپنی دفاع کی بات کرتا ہے ، وہ سمجھ لے اور اس کے آقا بھی سمجھ لیں ، دفاع کی سب سے بہتر گارنٹی امن استحکام اور پر امن بقائے باہم ہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔