این سی ای آر ٹی کے ایک حالیہ سروے کے بعد محسوس ہو رہی ’بچوں پر مرکوز تعلیمی نظام‘ کی ضرورت
سروے جنوری اور مارچ کے درمیان 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے طلباء میں دماغی صحت اور جسمانی تندرستی کے بارے میں اسکولی طلباء کے خیالات کو سمجھنے کے لیے کیا گیا تھا۔
وزارت تعلیم اور نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCERT) کے ذریعہ حال ہی میں کرائے گئے قومی دماغی صحت سروے سے پتہ چلا ہے کہ مڈل اور ہائی اسکول کی سطح پر طلباء کی ایک بڑی اکثریت تعلیمی سرگرمیوں کو لے کر فکر مند ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں ملک بھر کے تقریباً 3.8 لاکھ طلباء کے جوابات پر مبنی سروے کے نتائج نے ’بار بار موڈ میں تبدیلی‘ کو قابل تشویش قرار دیا ہے۔ سروے کے مطابق ہندوستان میں 10 میں سے 8 (81 فیصد) مڈل سے ہائر سیکنڈری کلاس کے طلباء نے تعلیم سے متعلق خصوصاً اسٹڈیز (50 فیصد) اور امتحانات کے نتائج (31 فیصد) کے بارے میں بے چینی کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ ان بچوں میں سے تقریباً نصف (49 فیصد) اپنی ذاتی زندگی سے مطمئن نہیں تھے، اور نصف کے قریب (45 فیصد) اپنی جسمانی ساخت سے خوش نہیں تھے۔
یہ سروے جنوری اور مارچ کے درمیان 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے طلباء میں دماغی صحت اور جسمانی تندرستی کے بارے میں اسکولی طلباء کے خیالات کو سمجھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ جواب دہندگان کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا– مڈل اسٹیج (کلاس 6 سے 8) اور سیکنڈری اسٹیج (کلاس 9 سے 12)۔
سدھارتھ چوپڑا (’سامرتھ‘ کے ایک رکن، جو والدین کی آوازوں کو فعال کرنے اور اسکولوں میں والدین کی شرکت کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے) نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ کو بتایا کہ بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے طلبا میں بے چینی اسکول کے اندر اور باہر دونوں جگہ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’اسکول کے اندر دی گئی سزا، آپ کے ہم جماعتوں کے ہاتھوں مارے جانے یا غنڈہ گردی کا خوف، یہاں تک کہ بعض اوقات اساتذہ کی طرف سے دیا گیا ہوم ورک مکمل نہ ہونے کا خوف، اور کلاسز میں فیل ہونے کا خوف بھی طلبا کے لیے اضطراب کا باعث بنتا ہے۔‘‘
بیرونی عوامل کے تعلق سے بات کرتے ہوئے سدھارتھ چوپڑا نے کہا کہ ’’زیادہ تر ان کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ بچہ کس ماحول میں رہتا ہے۔ جب والدین کو اکثر کام پر جانا پڑتا ہے اور وہ صبح سے رات تک باہر رہتے ہیں، تو بچوں کو کبھی کبھی گھر میں تعاون یا سیکھنے کا بہتر ماحول نہیں ملتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’جب ایک بچہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ مشکل حالات کا کا سامنا کرتا ہے تو بے چینی اور ڈپریشن عام بات ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : عمر خالد کو دہلی ہائی کورٹ سے ملی مایوسی، ضمانت عرضی خارج
بہرحال، سروے کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ذاتی اور اسکولی زندگی میں بے اطمینان اس وقت دیکھنے کو زیادہ ملتی ہے جب طلباء مڈل سے سیکنڈری اسٹیج میں منتقل ہوتے ہیں۔ دراصل سیکنڈری اسٹیج میں طلبا کو شناختی بحران کے چیلنجز، رشتوں کے تئیں حساسیت میں اضافہ، ساتھیوں کا دباؤ، بورڈ امتحان کا خوف، مستقبل کے داخلوں اور کیریئر وغیرہ کے لیے بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سروے میں یہ بھی اخذ کیا گیا کہ 45 فیصد طلباء ہفتے میں دو یا تین بار تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے کل 34 فیصد نے آنسوؤں کو محسوس کیا، جبکہ 27 فیصد نے تنہائی محسوس کی۔ یہ جذبات طلبا میں سیکنڈری اسٹیج کے دوران محسوس کیے گئے۔ سدھارتھ چوپڑا کا کہنا ہے کہ کئی بار بچوں کے پاس ایسے لوگ نہیں ہوتے جن سے وہ کھل کر بات کر سکیں، یا ان کے ساتھ جشن منا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسکول جانے والے بچے بھی اب تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔
سروے کے دوران پتہ چلا کہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں تعلیم سے متعلق جزوی طور پر زیادہ فکر مند پائی گئیں۔ اس معاملے میں 77.7 فیصد لڑکوں کے مقابلے میں 81.1 فیصد لڑکیاں پریشان رہتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں ناخوش بھی زیادہ معلوم پڑتی ہیں۔ سروے کے مطابق جہاں 64.4 فیصد لڑکیوں نے خوشی کے جذبات کا اظہار کیا، وہیں 67.7 فیصد لڑکوں نے اپنی خوشی ظاہر کی۔ جہاں تک تھکاوٹ، آنسو بھرے لمحات اور تنہائی کے احساسات کا معاملہ ہے، لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی اس طرح کے جذبات میں مبتلا پائی گئیں۔
سدھارتھ چوپڑا کا کہنا ہے کہ ’’لڑکیوں کی حالت لڑکوں کے مقابلے کہیں زیادہ خراب ہے۔ جب لڑکیاں اپنی آواز اٹھاتی ہیں اور اپنی پسند کے لیے زور دیتی ہیں تو معاشرہ اسے پسند نہیں کرتا۔ جب یہ ناپسندیدگی بڑھ جاتی ہے تو معاشرہ اس سے نمٹنے کے لیے لڑکیوں کو مسترد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ چوپڑا مزید کہتے ہیں ’’لڑکیوں کو ہر قسم کے امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ والدین اپنے لڑکوں کو پرائیویٹ اسکولوں اور لڑکیوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں COVID-19 کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے آغاز پر اسکول بند ہونے کی وجہ سے تقریباً 250 ملین طلباء متاثر ہوئے تھے۔ وبائی مرض نے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں کئی چیلنجز کو جنم دیا۔ سروے کے مطابق 51 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں آن لائن موڈ کے ذریعے سیکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ 39 فیصد نے کہا کہ انہیں تکنیکی یا نیٹورک سے متعلق مسائل سے نمٹنا پڑا۔ مجموعی طور پر 43 فیصد طلباء نے کہا کہ انہیں وبائی امراض کے دوران موڈ میں تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ تقریباً 18 فیصد طلباء نے کہا کہ ان کے خاندان مالی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔