حکومت اور پرسنل لاء بورڈ دونوں کی نیت ٹھیک نہیں !

مجوذہ مسلم خاتون بل پیش کرنے کے پیچھے حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اور پرسنل لاء بورڈ بھی مسائل حل کرنے میں سنجید ہ نہیں ہے

مسلم خواتین 
مسلم خواتین
user

سید خرم رضا

مرکزی حکومت جس طلاق ثلاثہ بل کو پارلیمنٹ میں اس ہفتہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کو مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک ہنگامی اجلاس بلاکر یکسر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شریعت میں مداخلت ہے ۔ پرسنل لاء بورڈ کے جس ہنگامی اجلاس میں اس مجوذہ بل پر غور کیا گیا اس میں ارکان کی تعدد محض 19تھی یعنی 32ارکان نے شرکت نہیں کی۔ ارکان کا یہ کہنا کہ ہنگامی اجلاس ہونے کی وجہ سے ان کو اطلاع آخری موقع پر ملی اور زیادہ تر ارکان کی پہلے سے کوئی نہ کوئی مصروفیت رہی جس کی وجہ سے وہ شرکت نہیں کر پائے۔ ارکان کے اس عذر کو مان بھی لیا جائے تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حتمی فیصلے سے قبل تمام ارکان سے فون پر رائے لی گئی تھی یا نہیں۔ قومی آواز کی اطلاع کے مطابق ایسا نہیں کیا گیا۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’’ حکومت کی نیت تو مسلمانوں کو گھیرنے کی ہے ہی۔ پرسنل لاء بورڈ کو اس میں زیادہ پڑنا نہیں چاہئے تھا۔ سرکار نے جو جلد بازی دکھائی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔ پرسنل لاء بورڈ اس مسئلہ کے تیئں سنجیدہ نظر نہیں آتا ہے اور اس نے ابھی تک مسئلہ کے حل کی جانب کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا‘‘۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اور نہ ہی اس کو مسلم خواتین سے کوئی ہمدردی ہے وہ بس مسلم خاندانوں میں تقسیم چاہتی ہے۔ اس معاملہ پر متحرک سماجی کارکن جاوید آنند کا کہنا ہے کہ ’’ ہم نہ تو پرسنل لاء بوردڈ کی سوچ کے ساتھ ہیں اور نہ ہی حکومت کی سوچ کے ساتھ ہیں۔حکومت کے مجوذہ بل میں جو یہ تین سال کی سزا متعین کی گئی ہے وہ سراسر غلط ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سزا اور جرم کے درمیان ایک رشتہ ہوتا ہے ۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جرم کتنا سنگین ہے اور اس کے لئے سزا کتنی سنگین ہونی چاہئے جیسے کچھ جرائم کے لئے عمر قید ہوتی ہے، کچھ کے لئے دس سال کی سزا ہوتی ہے اور کچھ کے لئے دو سال کی سزا یعنی جرم کی مطابق سزا طے کی جاتی ہے ۔اس لئے تین سال طے کر دینا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کو آپ نے سزا دے دی اور اس کو جیل بھیج دیا لیکن اس کے بچوں اور بیوی کا کیا ہوگا ۔ ہم اس قانون کے حساب سے اس کے بچوں اور بیوی کو بھی سزا دے رہے ہیں کیونکہ اگر مرد جیل میں رہے گا تو اس عورت اور اس کے بچوں کی کفالت کا کیا ہوگا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پولیس کے ایک طبقہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب ہے تو اس بل کے ذریعہ حکومت ایسے متعصب پولیس والوں کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار دینے جا رہی ہے ‘‘

پرسنل لاء بورڈ کی جو تاریخ رہی ہے اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ وہ اس جانب سنجیدہ نہیں ہے۔ جاید آنند کا کہنا ہے کہ ’’ پرسنل لاء بورڈ کا موقف سراسر غلط ہے اور ہمیں ان کی نیت پر شک ہے ۔ ایک عرصہ سے تو میں دیکھ رہا ہوں کہ انہوں نے اس جانب کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور جس بیداری کی بات بورڈ کرتا ہے وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا‘‘۔ اس کے حل کے تعلق سے جاوید کا مزید کہنا ہے کہ ’’ ہمار اماننا ہے کہ2005 میں جو گھریلو تشدد ایکٹ بنا ہے۔ اس قانون کے تحت یہ ہے کہ جو بھی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوں گی ان کے لئے جلد از جلد کوئی قانونی راستہ اور مدد فراہم کی جائے۔ گھریلو تشدد کی تشریح صرف مار پیٹ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ذہنی استحصال ہے اور پیسہ نہ دینا وغیرہ شامل ہے اور کوئی بھی خاتون اگر گھریلو تشدد کا شکار ہے تو اسے نہ تو وکیل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پیسے کی ضرورت ہے ۔ وہ سیدھے طور پر مجسٹریٹ کی عدالت میں جاکر کھڑی ہو سکتی ہے اور مجسٹریٹ کو بھی تین دن کے اندر سنوائی شروع کرنی ہو گی اور تین ماہ کے اندر فیصلہ بھی دینا ہوگا۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ طلاق کے معاملے کو فوری طور پر گھریلو تشدد کے تحت دائر کیا جائے اور اسی قانون کے تحت عورت کو ریلیف دیا جائے اور اسی کے تحت مرد کو سزا دی جائے‘‘۔

یہ بات تو واضح ہے کہ نہ اس معاملے میں حکومت کی نیت صاف ہے اور نہ ہی پرسنل لاء بوڑد اس میں سنجیدہ ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم پرسنل لاء بوڑد مستقل اپنے رویہ سے حکومت کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیا ر دے رہی ہے اور مسلم مسائل کے تیئں یہ ہی رویہ رہا تو آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے یہ مسائل پھر ملک کی سیاست کا حصہ بنیں گے اور ملک کے مسائل پیچھے رہ جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔