محرم الحرام، عبرت اور شہادت کا مہینہ...نواب علی اختر
امام حسین نے پوری دنیا کے لوگوں کو حریت و آزادی، پائیداری و پامردی، ایثار و فداکاری، استقامت و شہادت اور عشق و وفاداری کا درس دیا ہے
شمشیر پر خون کی فتح کے مہینے اور ماہ عزا محرم الحرام کی آمد پر عطر حسین کی خوشبو چہار سو پھیل چکی ہے، حسینی عشق و ولولہ اپنے عروج پر ہے اور دنیا مظلوم کربلا، پاسبان شریعت و سیرت مصطفی و مرتضیٰ امام حسین علیہ السلام کے ایام شہادت میں عزاداری و سوگواری میں مصروف ہو چکی ہے۔ محرم الحرام کی آمد کے پیش نظر ساری دنیا منجلہ ہندوستان، یورپ، پاکستان، امریکہ، عالم اسلام بالخصوص عراق، ایران اور شام میں پرچم عزا لہرا رہے ہیں۔ افق پر ماہ عزا نمودار ہوتے ہی باقاعدگی سے فرش عزا بچھا کر کربلائی درسگاہ سجا گیی ہے، جہاں بلا تفریق مذہب و ملت لوگ آکر مادی و معنوی فیض حاصل کرتے ہیں اور اس ہستی کا ذکر کرتے ہیں جس نے اپنے اور اپنے پیاروں کے لہو سے اسلام کے نڈھال پودے کی آبیاری کر کے اسے حیات ابدی عطا کر دی۔
نواسۂ رسول حسین ابن علی کی ذات گرامی صرف اہل تشیع یا تسنن سے مخصوص نہیں بلکہ دیگر ادیان کے پیروکار بھی امام حسین سے اظہار عقیدت کرتے ہیں ، آپ اور جانثاران کربلا کے ہاتھوں رقم شدہ خطوط پر گامزن رہنے کا عزم کرتے ہیں۔ حسین اس نقطہ اتحاد کا نام ہے جس کے گرد آج دنیا کے ایسے کروڑوں حریت پسند اکٹھا ہو چکے ہیں جن کا تعلق مختلف ملک، قوم، قبیلے، نسل، رنگ، مذہب اور فرقے سے ہے اور سبھی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا پیشوا شہید کربلا حسین ہے۔ امام حسین نے پوری دنیا کے لوگوں کو حریت و آزادی، پائیداری و پامردی، ایثار و فداکاری، استقامت و شہادت اور عشق و وفاداری کا درس دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک موت، ظلم و ستم کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے سے زیادہ بہتر اور ذلت کی زندگی آتش جہنم میں داخل ہونے سے بہتر ہے۔
حسین اس حقیقت کا نام ہے جس کی چودہ سو سال قبل ہونے والی شہادت نے آج تک انسانی دلوں میں حرارت پیدا کر رکھی ہے اور یہ حرارت ایسی ہے جو کبھی ٹھنڈی ہونے والی نہیں ہے۔ حضرت رسول صادق، محمد مصطفی نے خوب فرمایا تھا کہ میدان کربلا میں شہادت حضرت حسین نے انسانوں کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا کر دی ہے جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔ جی ہاں یہی وہ حرارت ہے جو بقائے انسانیت کی ضمانت ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام و ایمان کی محافظ ہے۔ آج بھی وہی حرارت دلوں کی دھڑکن کے ساتھ سینوں میں موجود ہے۔ بقول شاعر: نامِ شبیر پہ بے ساختہ گریہ ہونا، بعد کلمے کے یہ ایماں کا نشاں اور بھی ہے۔
کربلا کے عظیم اور جانکاہ واقعات کے د و پہلو ہیں؛ ایک پہلوامام حسین اورآپ کے اعوان و انصار کی غم انگیز اور مظلومانہ شہادت پر حزن و ملال ہے جس پر اگر قیامت تک آنسو بہائے جائیں تب بھی حق مطلب ادا نہیں کیا جاسکتا ۔دوسرا پہلو اس واقعے سے درس لینا اور عبرت حاصل کرنا ہے اس لئے کہ امام حسین نے کربلا میں اپنے خون سے ایک نئے مکتب کی بنیاد رکھی تھی جس کی جڑیں،آزادی، فداکاری، وفاداری، دین و انسانیت سے دفاع، ظلم و جور سے مقابلہ، عزت طلبی اور ظالم کے سامنے کبھی نہ جھکنے پر قائم ہیں۔ مکتب حسینی سراسر عشق اور عرفان و معنویت سے مملو ہے اور اس کا ممتاز پہلو شہادت سے بے پناہ لگاؤ ہے۔
کربلا کے واقعے کے مذکورہ دونوں پہلوؤں کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے ، یہ مہینہ جہاں عبرت اور شہادت کا مہینہ ہے وہیں امام حسین کے لئے فتح و کامرانی کا بھی مہینہ ہے۔ اس لئے کہ اس مہینہ میں اگرچہ امام حسین اپنے اعوان و انصار کے ہمراہ شہید ہوگئے لیکن شکست کو تسلیم نہیں کیا بلکہ فتح و کامرانی کا سہرا اپنے سر باندھا، اگرچہ یہ فتح علاقائی نہیں تھی بلکہ دلوں کی فتح تھی یعنی امام حسین نے کسی علاقہ یا شہر کو فتح نہیں کیا بلکہ لاکھوں دلوں کو فتح کیا او ر ان پر چھاگئے۔ آج مسلمان و غیر مسلمان بلکہ کروڑوں انسان اسی مکتب حسینی سے متاثر ہیں اور اپنے دل کی گہرائیوں سے امام حسین اورآپ کے الٰہی مکتب سے پیار کرتے ہیں۔ کربلا اور عاشورہ دو لوگوں کے درمیان مقابلہ آرائی کا نام نہیں ہے بلکہ وہاں دو مکتب اور دوآئیڈیالوجی کا ٹکراؤ تھا۔
وہاں پر مکتب حسینی کا مکتب یزیدی سے مقابلہ تھا اور علوی اسلام ، مصنوعی اسلام کے مقابلے میں کھڑا تھا، آج بھی یہ مقابلہ جاری ہے اور ہمارے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اسلام علوی اور اسلام یزیدی کے درمیان فرق کیا ہے اور ’کل یوم عاشورہ اور کل ارض کربلا‘ کا مطلب کیا ہے ؟ اور یہ بھی سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آج کا حسینی اسلام حقیقت میں لبرل اسلام کے مقابلے میں ہے جس کا پروپگنڈا مغربی میڈیا کرتی ہے۔ ہم سب کے لیے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہماری عزاداری ایک ایسی طاقت کا نام ہے جس نے صدیوں سے عاشورہ کو زندہ رکھا ہے ، نیز امام حسین اور دنیا کے کروڑوں انسانوں کے درمیان الفت و محبت کو قائم کیا ہے۔
ائمہ معصومین کی ساری کوشش اس امر پر مرکوز تھی کہ کسی بھی حال میں امام حسین کا مقصد اور آپ کی مظلومیت دلوں سے محو نہ ہو اور کربلا میں امام نے ہدایت کا جو چراغ جلایا تھا وہ کسی بھی حال میں خاموش نہ ہو، اسی تحریک کی ایک کڑی آج ہم امام حسین علیہ السلام کے اربعین پر نجف اشرف سے کربلائے معلیٰ کے درمیان پیادہ روی میں شریک کروڑوں انسانوں کی شکل میں دیکھتے ہیں جو ہر سال پورے جوش و ولولے کے ساتھ اس عظیم اور عالم انسانیت کے بے نظیر اجتماع میں شریک ہوتے اور مکتب حسینی کے زندہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
ہماری ساری کوشش اور عقیدتمندوں سے امید یہی ہے کہ یہ عزاداری اسی طرح بامقصد اور عبرت آموز باقی رہے ، یقیناً صادق آل محمد نے سچ فرمایا تھا کہ بے شک امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے انسانوں کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا کردی ہے جو کبھی بھی خاموش نہیں ہوسکتی، امام حسین علیہ السلام ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔