اٹل جی ایک نایاب نسل کی سنجیونی بوٹی تھے
اٹل جی صحیح معنوں میں دلدار شخص تھے جن کو میڈیا اور تخلیق کاروں سے ہمیشہ عزت ملتی رہی۔ کھانا ہو یا شاستریہ سنگیت، نظم ہو یا نثر، وہ سب کا کھل کر مزہ لینا جانتے تھے۔
ہندوستانی سیاست میں موجود طرح طرح کے آک، دھتورے، نیم اور بھٹکٹیا کے کانٹوں سے بھرے خطرناک جنگل میں اٹل جی ایک نایاب نسل کی سنجیونی بوٹی تھے۔ یکے بعد دیگرے ملک میں خوبیوں سے بھری اور مفاد عامہ والی نسل کی بوٹیاں ختم ہو رہی ہیں۔ اٹل جی ان لوگوں میں سے تھے جن کو واضح الفاظ استعمال کرنے والی میری ماں کی نسل ’عزت دار‘ کہتی تھی۔ بہت کم لوگ ان کی طرح سیاست میں اس عزت کے حقدار بنتے تھے۔ میری ماں کے ان شریف قارئین میں سے اٹل جی سالوں سے شامل تھے جن کے تئیں ان کا آخری لمحات تک بھائی جیسی محبت بنی رہی۔ ایک سمجھدار، ریاکاری سے پاک محبت جو کسی مفاد کی امید سے عاری ہوتا ہے۔ جب میں نے ہفتہ وار ’ہندوستان‘ کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی تو وہ شرارت میں مجھے ’سمپادیکا جی‘ کہنے لگے۔ ہفتہ واری کے لیے وہ نظموں کے علاوہ جب سیاسی اسباب سے وہ جیل گئے تو ’قیدی کوی رائے‘ کے نام سے بہت مزیدار کنڈلیاں بھی لکھا کرتے تھے۔ میرے ذریعہ تخلیقات کے مطالبہ کرنے پر ہمیشہ ان کا نرمی اور خلوص کے ساتھ محبت بھرا جواب آتا۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کی عزت رکھی، ان کی بھی جن سے ان کی سیاسی قدروں کو لے کر خاص اتفاق نہیں بنتا تھا۔ تخلیقات بھیج کر عزت افزائی کی لیکن یہ کہنا کبھی نہیں بھولتے کہ اگر ٹھیک لگے تو ہی شائع کیجیے گا ورنہ...۔
اٹل جی کی عام لوگوں کے لیے آسانی سے دستیابی اور ان کا باوقار عوامی سلوک ان آدھے پانی سے بھرے سیاسی گھڑوں کے لیے قابل تقلید ہوگا جو بات بے بات چھلکتی رہتی ہیں اور بدزبانی پر مبنی تنقید و خود تعریفی کا کیچڑ پھیلاتی رہتی ہیں۔ وہ بہت دوستانہ مزاج رکھتے تھے لیکن جو کہنا ہوتا وہ کہنے کا فن جانتے تھے:
’’میرے پربھو!
مجھے اتنی اونچائی کبھی مت دینا،
غیروں کو گلے نہ لگا سکوں
اتنی روکھائی کبھی مت دینا۔‘‘
اٹل جی صحیح معنوں میں دلدار شخص تھے جن کو میڈیا اور تخلیق کاروں سے ہمیشہ عزت ملتی رہی۔ کھانا ہو یا شاستریہ سنگیت، نظم ہو یا نثر، وہ سب کا کھل کر مزہ لینا جانتے تھے۔ اور اسی لیے وہ کھل کر مانتے رہے کہ ’’کثیر مذہبی مساوات ہندوستان کو گھٹی میں ملا ہے۔ ہندوستان کبھی مذہبی ملک نہیں بنا، نہ کبھی مستقبل میں بنے گا۔ ہم ایک فساد سے پاک سماج اور خیرسگالی والا ماحول بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘
ذاتی زندگی میں اپنی شرطوں پر جینے والے اٹل جی ان لوگوں میں سے تھے جن کو سیاست کے حدود کا اندازہ ہمیشہ رہا۔ 28 مئی 1996 کو پارلیمنٹ کے ایوان میں اپنا استعفیٰ صدر جمہوریہ کو دینے کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے رام کے الفاظ میں ایوان کے سربراہ سے جو کہا تھا وہ آج کے ضمن میں پھر یاد آتا ہے... ’’نہ بھیتو مرنادسمی، کیولم دوشتو یشہہ۔‘‘ مرنے سے نہیں میں ’کامیابی‘ کے داغدار ہونے سے ڈرتا ہوں۔
’’جب میں سیاست میں آیا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ رکن پارلیمنٹ بنوں گا۔ میں صحافی تھا اور جس طرح کی سیاست چل رہی ہے وہ مجھے پسند نہیں آتی۔ میں چھوڑنا چاہتا ہوں، لیکن سیاست مجھے نہیں چھوڑتی۔ وزیر اعظم بنتے وقت میرا دل خوشیوں سے اچھلنے لگا ہو، ایسا نہیں ہوا۔ اب جب میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلا جاؤں گا تب بھی میرے من میں کسی طرح کی تکلیف ہونے والی نہیں ہے۔‘‘
آج کے زہریلے، انانیت پسند اور کامیابی کا جشن منانے والے ماحول میں ان کا اس طرح چلے جانا، خاموشی کے ساتھ، بغیر کسی ہلچل، بغیر کسی لاگ لپیٹ کے، بالکل ان کی شخصیت سے مطابقت رکھتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Aug 2018, 7:54 PM