’شہزادے‘ سے خوفزدہ کیوں ہیں ’صاحب‘؟... سراج نقوی
مودی کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے نزدیک ضابطہ اخلاق کے کوئی معنی نہیں اور ان کے پاس ملک کی ترقی کا ایجنڈہ نہیں ہے، لہٰذا وہ اور ان کی پارٹی منافرت کی سیاست کے سہارے اپنی سیاسی کشتی پار لگانا چاہتی ہے
وزیر اعظم نریندر مودی اپنی آبائی ریاست گجرات میں انتخابی مہم پر ہیں اور ریاست کے مختلف شہروں میں جلسے، جلوسوں اور ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ لیکن اپنی انتخابی مہم میں وزیر اعظم جس طرح کانگریس اور خصوصاً راہل گاندھی کا ذکر کر رہے ہیں اس سے ان کی خوف کی نفسیات کی غمازی ہوتی ہے۔ نہ جانے کیوں مودی کانگریس لیڈر راہل گاندھی کا نام لینے سے گریز کرتے ہوئے انھیں ’شہزادہ‘ کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ اس انداز تخاطب کو مودی کی حس مزاح سے تعبیر کریں، لیکن سچ بہرحال یہی ہے کہ مودی آج کل خوفزدہ نظر آتے ہیں اور ان کے اس خوف کا اظہار مختلف صورتوں میں انتخابی جلسوں میں ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے یہ تو خود مودی ہی بہتر سمجھتے ہونگے لیکن اپنے جلسوں میں جس طرح کے الزام مودی کانگریس لیڈر شپ پر عائد کر رہے ہیں اس سے ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کے بے بنیاد الزامات بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔
جمعرات (2 مئی) کو وزیر اعظم نے گجرات میں کئی انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا لیکن کانگریس کے ذریعہ مبینہ طور پر ’ملک کے وسائل مسلمانوں کو دیے جانے‘ کا مودی کا انتخابی تیر نشانے پر نہ لگنے کے بعد اب انھوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ مودی نے کانگریس کو پاکستان کا مرید قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایسا کہتے وقت شاید وہ یہ بھول گئے کہ ملک کی تاریخ میں وہ خود ایسے پہلے وزیر اعظم ہیں کہ جو بغیر کسی طے شدہ پروگرام کے پاکستان پہنچنے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں، جبکہ اندرا گاندھی ہندوستان کی واحد لیڈر ہیں کہ جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام میں اہم ترین رول ادا کیا تھا اور پاکستان کے تعلق سے ان کی پالیسی کی تعریف اٹل بہاری واجپئی اور سنگھ تک نے کی، یہاں تک کہ اندرا گاندھی کو ’درگا‘ کے لقب سے بھی نوازا تھا۔ یہ حقائق اپنے آپ میں اس بات کے گواہ ہیں کہ کون سی پارٹی پاکستان کی مرید ہے۔ مودی کو شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اٹل بہاری واجپئی ایسے پہلے وزیر خارجہ تھے کہ جنہوں نے دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تعلق سے یہ بھی کہا تھا، ’’ہم اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے۔“ واجپئی ہی اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ’صدائے سرحد‘ بس لیکر پاکستان گئے تھے۔ واجپئی کے اس قدم کی نہ صرف پاکستان یا ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں تعریف ہوئی تھی۔ یہ حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان سے دوطرفہ رشتوں کی بحالی میں واجپئی نے کتنا اہم رول ادا کیا تھا۔ گجرات میں اپنی انتخابی ریلیوں میں مودی نے دعویٰ کیا کہ جب ہندوستان کی سب سے پرانی پارٹی اپنے ملک میں مر رہی ہے تو پاکستان میں لوگ اس کے لیے دعا کر رہے ہیں اور ’شہزادے‘ کو وزیر اعظم بنانے کے لیے بے چین ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مودی کو ایسی کوئی اطلاع پاکستان میں موجود ہندوستان کے سفارتی ذرائع نے دی ہے یا پھر سنگھ اور بی جے پی کے اپنے جاسوسوں نے ایسے کسی دعائیہ جلسے کے بارے میں بتایا ہے لیکن مودی اس تعلق سے جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے اس بیان کی تصدیق کانگریس کے منشور یا پھر پاکستان حکومت کی اعلانیہ خارجہ پالیسی سے کرنا ممکن نہیں، جبکہ ملک کے مالی وسائل مسلمانوں کو سونپنے کے جھوٹ کا پردہ فوراً ہی کانگریس کے منشور سے فاش ہو گیا تھا اور بی جے پی قیادت اس معاملے پر اب منھ چھپاتی پھر رہی ہے۔
دراصل مودی کے اس بیان یا الزام کا ایک سبب پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے ایک وزیر فواد حسین کے ذریعہ راہل گاندھی کی تعریف ہے، حالانکہ اگر پاکستان کی سیاسی قیادت یا پھر دیگر کوئی اہم شخصیت مودی کی تعریف کرتی تو بی جے پی اور خود مودی یہ کہنے سے گریز نہ کرتے کہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف دشمن بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ، انگلینڈ یا یورپ کے کسی ملک کے کسی اخبار میں اگر مودی کی تعریف میں ایک سطر بھی شائع ہو جاتی ہے تو ہندوستان کا گودی میڈیا اسے اپنی ’ہیڈ لائن‘ بنانے سے گریز نہیں کرتا۔ کسی بھی ملک کی سیاسی قیادت اور حکمراں یا اپوزیشن جماعت کے تعلق سے رائے زنی کرنا ایک عام بات ہے، لیکن مودی نے جس طرح راہل گاندھی کی پاکستانی لیڈر کے ذریعہ تعریف پر تنقید کی ہے اسے سوائے تنگ ذہنی کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ گجرات میں مودی نے کانگریس سے متعلق اپنے دیگر الزامات کو بھی دوہرایا۔ ان کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے نزدیک الیکشن کا مثالی ضابطہ اخلاق کوئی معنی نہیں رکھتا اور ملک کی ترقی کا کوئی ایجنڈہ اب بھی ان کے سامنے نہیں ہے، لہٰذا وہ اور ان کی پارٹی صرف منافرت کی سیاست کے سہارے اپنی سیاسی کشتی پار لگانا چاہتی ہے۔ ان کے لیے الیکشن میں کامیابی کا واحد ہتھیار ہندو، مسلم، پاکستان، مندر مسجد، گئو کشی، لوجہاد، گھر واپسی جیسے موضوعات ہی ہیں بھلے ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں ان موضوعات کا کوئی رول نہ ہو۔ مودی نے کانگریس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس کا انتخابی منشور ’مسلم لیگ کی زبان‘ میں ہے اب اگر مسلم لیگ کی زبان کی پرکھ اور پہچان مودی کو ہے تو راقم الحروف اسے چیلنج اس لیے نہیں کر سکتا کہ مسلم لیگ کے ساتھ اقتدار کی شراکت کا سنگھ اور جن سنگھ (بی جے پی کا پرانا نام) کا ریکارڈ میرے سامنے ہے۔
جہاں تک راہل گاندھی کو ’شہزادہ‘ کہہ کر ان کا ذکر کرنے کا تعلق ہے تو اس کا مناسب جواب کانگریس ہی دے گی، حالانکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ’جواب جاہلاں باشد خموشی‘ پر عمل کرتے ہوئے ایسی باتوں پر کانگریس قیادت خاموشی اختیار کر لے لیکن راہل گاندھی کو ’شہزادہ‘ کہنے والوں کو یہ بات کہتے ہوئے اس لیے شرم آنی چاہیے کہ بی جے پی نے اسی الیکشن میں اتر پردیش کے متنازعہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ اور کُشتی فیڈریشن کے سابق چئیرمین برج بھوشن سنگھ کی بجائے ان کے بیٹے کو ٹکٹ دے کر اپنے دامن کا داغ دھونے کی بچکانہ کوشش کی ہے۔ کیا برج بھوشن سنگھ کے بیٹے کو شہزادہ نہیں کہا جانا چاہیے کہ جو لوک سبھا ٹکٹ کا صرف اس بناء پر حقدار بن گیا کہ اس کے والد بی جے پی کے ایک طاقتور لیڈر ہیں۔برج بھوشن سنگھ سے متعلق معاملے کو یہاں دوہرائے جانے کی ضرورت نہیں لیکن ان کے بیٹے کو ٹکٹ ملنے کے پیچھے کے اسباب تو بہرحال جگ ظاہر ہیں۔ صرف برج بھوشن سنگھ کے بیٹے کو ہی ٹکٹ دیے جانے کا معاملہ نہیں بلکہ بی جے پی کے موجودہ ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کی ایسی طویل فہرست ہے کہ جو اپنے خاندان کے سیاسی پس منظر کے سبب مختلف اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن ایسے معاملوں میں بی جے پی کو کنبہ پرستی نظر نہیں آتی۔ جبکہ دوسری طرف راہل گاندھی نے گزشتہ کچھ عرصے میں ہندوستان کی زمینی حقیقت کو کئی ہزار کلو میٹر کا پیدل سفر طے کر کے سمجھا ہے۔ راہل کے خاندانی پس منظر سے انھیں جو کچھ ملا اس سے زیادہ خود ان کی سیاسی مشقت کا نتیجہ ہے۔ اس لیے انھیں ’شہزادہ‘ کہہ کر مخاطب کرنا دراصل مودی یا بی جے پی میں راہل کے تعلق سے پایا جانے والا احساس کمتری ہے۔ راہل کو ’پپّو‘ کہنے کا نسخہ کامیاب نہ ہونے کے بعد اب انھیں شہزادہ کہہ کر مودی اور بی جے پی اپنی کمزور ہی ثابت کر رہے ہیں۔ مسلمانوں سے متعلق متنازعہ بیان کے بعد اب پاکستان کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کر کے بھی مودی اپنی اور اپنی پارٹی کی بوکھلاہٹ کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ان کا یہ رویہ وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو کم کر ہا ہے لیکن اقتدار میں دوبارہ واپسی کی بے قراری کے سبب انہیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔