مودی حکومت کی پالیسی، ہائی وے چاہئے، ہمالیہ نہیں!
ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے 100 کلومیٹر کے دائرے میں سڑک تعمیر کرنے سے پہلے منظوری حاصل کرنا ضروری نہیں
مودی حکومت میں سماج، معیشت، سیاسی تانے بانے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی تباہی بھی منظم طریقے سے جاری ہے۔ سال 2014 سے ماحولیات اور جنگلات کے تحفظ سے متعلق ہر قانون کو مسلسل کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم جب بھی ملک کے ماحولیاتی تحفظ کی روایت پر زور دیتے ہیں تو ماحولیات سے متعلق قوانین کو پہلے سے زیادہ بے اثر کر دیا جاتا ہے۔ ملک کی ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت اب ماحولیاتی تحفظ کے لیے نہیں بلکہ ماحولیاتی تباہی کے لیے جانی جاتی ہے۔ بی جے پی حکومت کی پالیسیاں سرمایہ داروں کے منافع میں اضافے اور نریندر مودی کے نام نہاد ’ڈریم پروجیکٹ‘ اور ہمالیہ کی تباہی کی علامت بن چکے ’چار دھام آل ویدر موٹر ایبل ہائی وے‘ کو فروغ دینے پر مرکوز ہیں، تاکہ مودی جی کو ہندو مذہب کا مسیحا ثابت کیا جا سکے اور یہی اس حکومت کی نظر میں ترقی ہے!
حال ہی میں حکومت ہند کی ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے 100 کلومیٹر کے دائرے میں سڑکوں یا شاہراہوں کی تعمیر سے پہلے ماحولیاتی منظوری کی ضرورت نہیں ہے اوار ایسے منصوبے خود ماحولیاتی تحفظ کا خیال رکھیں گے۔ اس حکم نامہ کے مطابق یہ ان علاقوں کی اسٹریٹجک اہمیت اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس حکم کے بعد ہمالیہ اور شمال مشرق کے حساس ماحول کے تباہ ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔
مودی دور میں تزویراتی اہمیت اور قومی سلامتی پر خواہ ڈاکہ ڈالا جاتا رہے لیکن ان کے الفاظ ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اسے سمجھانے کے لئے چار دھام ہائی وے منصوبے کی مثال سامنے ہے۔ وزیر اعظم نے اسے ہندوؤں کی یاترا آسان بنانے کی سمت میں اٹھایا گیا قم قرار دیا اور روڈ ٹرانسپورٹ کے وزیر نتن گڈکری کی خوب تعریفیں کیں۔ اس وقت قومی سلامتی اس شاہراہ سے منسلک نہیں تھی بلکہ اسے صرف یاترا کی سہولت کے لیے بتایا جا رہا تھا۔ وزارت ماحولیات نے بہت سی ترکیبیں لگا کر اسے ماحولیاتی منظوری سے آزاد کرایا۔ اندرون اور بیرون ملک ماہرین ماحولیات نے اس منصوبے کو ہمالیائی ماحولیاتی نظام اور ماحولیات کے لیے تباہ کن قرار دیا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور سپریم کورٹ نے ہائی وے کا کام نہیں روکا بلکہ اس کی چوڑائی 5.5 میٹر مقرر کر دی۔ اس فیصلے کے بعد مسئلہ یہ تھا کہ وزیر اعظم مودی نے اسے 4 لین سے 6 لین والی شاہراہ کا نام دے کر خوب تعریفیں لوٹ لی تھیں۔ اس کے بعد اس معاملے کی کمان وزارت دفاع کو سونپ دی گئی۔ سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے اچانک اس یاترا سڑک کو سٹریٹجک اہمیت اور قومی سلامتی سے جوڑتے ہوئے کہا کہ 10 میٹر سے کم چوڑی سڑک پر ہتھیار، بکتر بند گاڑیاں، راکٹ لانچر اور بڑا سامان نہیں لے جایا جا سکتا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اسے اس بات کا مطالعہ کرنے کو کہا کہ اس ہائی وے کی چوڑائی 10 میٹر تک بڑھانے سے ماحولیات کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ کمیٹی کے کچھ ارکان 10 میٹر چوڑائی کے حق میں تھے، باقی ارکان اور کمیٹی چیئرمین کی رائے اس کے برعکس تھی۔ جب حکومت کی جانب سے 10 میٹر کے ہائی کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا تو اس سے تنگ آ کر چیئرمین نے عہدہ چھوڑ دیا! اس کے بعد حکومت نے اپنے من پسند افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی، جس نے متفقہ طور پر 10 میٹر چوڑائی کے حق میں فیصلہ کیا۔
ہمالیہ پر بڑے منصوبوں کے ذریعے ماحولیاتی تباہی اور موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات بار بار سامنے آتے ہیں لیکن حکومتیں ایسے ہر اثر کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ اب تک ماحولیاتی منظوری کے نام پر آدھا ادھورا ہی سہی مگر مقامی ماحولیات کا کچھ تو مطالعہ کیا ہی جاتا تھا، منصوبوں کے ذریعے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کا بھی جائزہ لیا جاتا تھا لیکن اب ایسا کچھ نہیں کیا جائے گا۔ ہر چھوٹے یا بڑے منصوبے شروع سے آخر تک ٹھیکیدار کے اشارے پر چلتے ہیں اور کوئی بھی ٹھیکیدار صرف اپنے منافع کے لیے کام کرتا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کو اس کے کام میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہمالیائی پروجیکٹوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ اگر مقامی لوگ اب ماحولیاتی تباہی کی شکایت بھی کریں گے قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے کر شکایت کنندگان کو خاموش کر دیا جائے گا۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ماہرین کی طرف سے کئے گئے مطالعات کے مطابق گزشتہ 20 سالوں (2001 سے 2020 تک) کے دوران ہندوستان میں تقریباً 20 لاکھ ہیکٹر علاقہ پر موجود درختوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ درختوں کی اس تباہی کا مطالب ہے جنگلات کا کٹنا، آگ کی وجہ سے درختوں کا تباہ ہونا، سماجی جنگلات کے تحت درختوں کا کٹ جانا یا تیز طوفانوں میں درختوں کا گر جانا شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ 2014 کے بعد درختوں کے خاتمہ کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں میں یہ شرح بہت زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 20 سالوں کے دوران جتنا رقبہ درختوں سے خالی ہوا ے، اس کا 77 فیصد شمال مشرقی ریاستوں سے آتاہ اور اگر ہم صرف سال 2020 کی بات کریں تو یہ رقبہ 79 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ 2001 اور 2020 کے درمیان شمال مشرقی ریاستوں میں 1.4 ملین ہیکٹر اراضی درختوں سے خالی ہو گئی، جبکہ صرف 2020 میں یہ رقبہ 110000 ہیکٹر تھا۔ ظاہر ہے کہ اس رقبہ میں جو شاہراہوں کے منصوبے آئیں گے وہ جنگلات کو روند کر آگے بڑھیں گے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہم ماحولیاتی تباہی کے تناظر میں ’وشوگرو‘ بن چکے ہیں! سال 2022 کے ماحولیاتی کارکردگی کے انڈیکس میں ہندوستان کل 180 ممالک میں سے 180 ویں مقام پر ہے۔ یہ انڈیکس ییل یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر ’ورلڈ اکنامک فورم‘ کے لیے تیار کیا ہے اور اسے 2012 سے ہر دو سال بعد شائع کیا جاتا ہے۔ سال 2020 کے انڈیکس میں ہندوستان 168 ویں مقام پر تھا۔
انڈیکس ہندوستان پر ختم ہوتا ہے اور ہندوستان سے پہلے میانمار، ویتنام، بنگلہ دیش، پاکستان، پاپوا نیو گنی، لائبیریا، ہیٹی، ترکی اور سوڈان کا مقام ہے۔ جاپان 25ویں مقام پر وہ ایشیائی ممالک میں سرفہرست ہے۔ جنوبی کوریا 63ویں، تائیوان 74ویں، افغانستان 81ویں، بھوٹان 85ویں اور سری لنکا 132ویں مقام پر ہے۔ چین 160ویں، نیپال 162ویں، پاکستان 176ویں، بنگلہ دیش 177ویں اور میانمار 179ویں مقام ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے تمام پڑوسی ممالک ہم سے بہتر مقام پر ہیں۔ ماحولیاتی کارکردگی کا انڈیکس ممالک کی موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، صحت عامہ، صاف پانی، حفظان صحت اور حیاتیاتی تنوع جیسے عناصر کے حوالہ سے کارکردگی پر مبنی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صرف چند ممالک جیسے ڈنمارک اور برطانیہ سال 2050 تک صفر کاربن کے اخراج کی راہ پر گامزن ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہتے ہیں جیسے آج ہیں تو صرف 4 ممالک - چین، ہندوستان، امریکہ اور روس 2050 تک کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 50 فیصد سے زیادہ حصہ ڈالیں گے۔
وزیر اعظم جب ہوا میں ہاتھ لہرا کر ماحولیاتی تحفظ پر تقریر کر رہے ہوتے ہیں تو اسی دوران کچھ جنگلات کٹ جاتے ہیں، کچھ لوگ ماحولیاتی تباہی اور آلودگی کی وجہ سے مر جاتے ہیں، کچھ قبائلوں کو گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے، کہیں آلودگی بڑھ جاتی ہے، ماحولیاتی تحفظ کے کئی قوانین میں ترمیم کر دی جاتی ہے اور دریا پہلے سے کہیں زیادہ آلودہ ہو جاتے ہیں!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Jul 2022, 10:54 AM