رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام انسانیت کے نام... آفتاب احمد منیری
رسول عربیؐ نے فرمایا ’’لوگو! تم میں سے کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اعمال سب سے اچھے ہیں‘‘۔
سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا محبوب ترین موضوع ہے جس پر مختلف زبانوں میں ہزاروں کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔ حلقہ ایمان میں داخل ہر مصنف کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار ضرور انسانیت کے محسن اعظم کو گلہائے عقیدت پیش کرے نیز دنیا کو بعثت نبویؐ کے مقاصد عالیہ سے روشناس کرائے۔ اس لئے کہ ذات محمدؐ انسانیت کی تفسیر ہے، جو مطالعۂ تاریخ اور علمی تحقیق کی روشنی میں تمام صالح قیادتوں کا مرکز و محور قرار پائی ہے۔ جنہیں اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی اسی بلند ترین مقام و مرتبہ پر موجود پایا۔ بقول شاعر:
جہاں میں کتنے رسول آئے نہ آیا کوئی عظیم تم سا
فہیم تم سا، علیم تم سا، نعیم تم سا، حکیم تم سا
ہزار ڈھونڈا تمام دیکھا کسی نے لیکن کہیں نہ پایا
حسین تم سا، امین تم سا، جمیل تم سا، وسیم تم سا
مشہور امریکی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ کی علمی تاریخ پر مبنی کتاب ’دی 100‘ عرصہ دراز سے اہل علم کے درمیان موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مصنف کا پیغمبر اسلامؐ کو انسانی تاریخ کی عظیم ترین شخصیت قرار دینا ہے۔ مصنف کا اس بات پر اصرار ہے کہ رسول عربیؐ نے انسانی تاریخ پر جو غیر معمولی اثرات ڈالے، وہ کسی بھی دوسری مذہبی یا غیر مذہبی شخصیت نے نہیں ڈالے۔
مصنف نے آپ کی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:
“He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels”
اس کے مذکورہ بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپﷺ انسانی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جو مذہبی اور دنیوی سطح پر انتہائی کامیاب رہی۔
اگر اس علمی تحقیق کا تاریخی طور پر جائزہ لیں تو ہماری ملاقات انسانیت کے ایسے عظیم ترین محسن سے ہوتی ہے جس کی انقلابی تعلیمات نے دنیا کا نظام بدل ڈالا، جس نے مظلوم انسانیت کو آبرمند کیا، اپنی مظلومیت پر ماتم کناں بنت حوا کے سر پر عزت و سرفرازی کا تاج رکھا اور رنگ و نسل کی تفریق مٹا کر تہذیب انسانیت کی بنیاد ڈالی۔
معروف اہل قلم مولانا وحید الدین خان کے لفظوں میں کہیں تو ’’مذہبی اداروں میں شخصیت پرستی کے بجائے خدا پرستی کس نے قائم کی۔ اعتقادیات کو توہمات کے بجائے حق کی بنیاد کس نے عطا کی۔ سائنس میں فطرت کی پرستش کے بجائے فطرت کو مسخر کرنے کا سبق کس نے دیا۔ سیاسیات میں نسلی شہنشاہیت کے بجائے عوامی حکومت کا راستہ کس نے دکھایا۔ علم کی دنیا میں خیال آرائی کے بجائے حقیقت نگاری کی طرح کس نے ڈالی۔ سماج کی تنظیم کے لئے ظلم کے بجائے عدل کی بنیاد کس نے فراہم کی۔ جواب یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں انسانیت کو پیغمبر اسلام ﷺ سے ملیں۔‘‘ (پیغمبر انقلاب، صفحہ 7، مصنف مولانا وحید الدین خان)
مذکورہ تمام باتیں بحیثیت مسلمان ہمیں حیرت زدہ نہیں کرتیں۔ اس لیے کہ آخری الہامی کتاب قرآن کریم میں امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ فرمانِ الٰہی موجود ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود ہے) الاحزاب: 21
لیکن کیا محض یہ کہہ دینے سے ہماری ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ جواب ہے ’نہیں‘ ایک زندہ قوم ہونے کے ناطہ ہمارا یہ فرض ہے کہ انسانیت کے نام انسانیت کے محسن اعظم کا جو پیغام ہے، اس پیغام کے تئیں ہم غفلت کا شکار نہ ہوں۔ اگر ایماندارانہ طور پر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہمیں شرمندگی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم نے پیغمبر اسلامؐ کی انقلابی تعلیمات کو دنیا تک نہیں پہنچایا۔ اگر ہم نے یہ فریضہ ادا کیا ہوتا تو آج تعلیمی، تاریخی، سماجی و سیاسی مباحثوں کا موضوع مارٹن لوتھر کنگ، نیلسن منڈیلا، کارل مارکس اور ابراہم لنکن کی جگہ رحمت کائناتؐ کی ذات والا صفات ہوتی۔ اس لئے کہ حقوق انسانی کا پہلا سبق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دنیا کو دیا تھا۔ عزوہ بدر کے موقع پر جب جنگی قیدیوں کو پیغمبر اسلامؐ کے سامنے پیش کا گیا تو آپؐ نے ان تمام قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ یہ حسن سلوک انسانی دنیا کو محمد ﷺ کی دین ہے۔ ہر سال فروری کے مہینے میں نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ اور میلکم ایکس کو نسل پرستی کے خلاف ان کی جد و جہد اور خدمات کے لیے یاد کیا جاتا ہے لیکن ان ممتاز شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرتے وقت یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ تاریخ کی وہ سب سے پہلی شخصیت ہیں جس نے نسل پرستی کا خاتمہ کیا۔ وہ ہمارے نبیؐ ہی تھے جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر ایک کالے کلوٹے حبشی غلام حضرت بلالؓ کو خانہ کعبہ کی مقدس عمارت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم دیا اور انہیں اپنا قریبی ساتھی اور مؤذن بنایا۔ نیز آپؐ نے رنگ و نسل کو جہالت قرار دیتے ہوئے علم اخلاق اور نیک اعمال کو انسانی عظمت کا معیار قرار دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں رنگ و نسل کا امتیاز اپنے عروج پر تھا۔ اور لوگ اپنے غلاموں اور کالے انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔
سن 10 ہجری بمطابق 632ء کو رسول عربیؐ نے میدان عرفات میں اپنا آخری خطبہ دیا۔ اپنے اس تاریخی خطبہ میں آپؐ نے رنگ و نسل کی تفریق کے حوالہ سے شریعت اسلامی کا موقف واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! تم میں سے کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اعمال سب سے اچھے ہیں۔‘‘
جب ہم حقوق انسانی کی بات کرتے ہیں، یا حقوق نسواں کا پرچم بلند کرتے ہیں تو عملی تحقیق کا یہ تقاضہ ہے کہ ہم دین رحمت کے اس عظیم داعیؐ کی تعلیمات سے بھی کسب فیض کریں، جس نے دنیا کے سامنے ایسا دین پیش کیا، جس دین نے عورتوں کو جائداد کا حق، علم حاصل کرنے اور اپنی پسند کی شادی و طلاق لینے (خلع) کا حق دیا۔ جس رسول رحمت ﷺ نے یہ تعلیم دی کہ بنت حوا ماں کی شکل میں قابل احترام، بیٹی اور بیوی کی شکل میں محبت، شفقت اور چاہت کا محور و مرکز ہے۔ اس ضمن میں پیغمبر انسانیت کے یہ الفاظ لعل و گہر سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔
’’لوگو! اپنی عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، جو خود کھاؤ وہ انہیں کھلاؤ، جو خود پہنو انہیں پہناؤ اور ان کے معاملہ میں حسن سلوک سے ہاتھ نہ کھینچو۔‘‘
میں یہ گفتگو ماہر القادریؒ کے ان اشعار کے ساتھ تمام کرتا ہوں
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔