امام خمینیؒ کے ’ہفتہ وحدت‘ کا پیغام... نواب علی اختر

مسلمانوں کو اور قریب لانے کے لیے 12 اور 17 ربیع الاول کے درمیان فرق کو ختم کرتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے ’ہفتہ وحدت‘ کا اعلان کیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر GettyImages</p></div>

تصویر GettyImages

user

نواب علی اختر

ماہِ مبارک ربیع الاول کے آتے ہی ہر طرف موسم بہار آجاتا ہے، حضور نبی کریم (ص) کے عاشقین میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور فدائین رسول میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور مسلمانوں کے درمیان مبارک بادی اور ذکر پاک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ہر جگہ مسلمان اپنی زبانوں کو درود پاک سے معطر کرتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں کو رنگ برنگے پرچموں، درود و سلام والے بینرز اور برقی قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو اس ماہ مبارک میں ختمی مرتبت، سرکار دو جہاں، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی جو کہ ہماری امت کے لیے خدا کی بہترین عطا اور بخشش کا ذریعہ ہے۔

جب کائنات میں کفر و شرک اور وحشت کا گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، 12 ربیع الاوّل کو مکہ مکرمہ میں حضرت آمنہ خاتون کے گھر سے ایک ایسا نور چمکا جس نے سارے عالم کو روشن کر دیا، سسکتی ہوئی انسانیت کی آنکھ جن کی طرف لگی ہوئی تھی، محسن انسانیت تمام عالمین کے لیے رحمت بن کر جلوہ گر ہوئے۔ آپ کی دنیا میں تشریف آوری کے ساتھ ہی کفر و ظلمت کے بادل چھٹ گئے، کسریٰ کے محل پر زلزلہ آیا، چودہ کنگرے گرگئے، دریائے ساوَہ خشک ہوگیا، کعبے کو وجد آگیا اور بت سر کے بل گر پڑے۔ اس با برکت ماہ میں مسلمان نبی کریم کی سیرت پاک پر ثابت قدم رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ یوں رحمت اللعالمین کی ذات مبارکہ جو ایثار و قربانی، صبرو رضا اور بھائی چارے کا پیکر ہے، نئے جوش و جذبے کیساتھ وحدت کا مثالی مرکز بن گئی ہے۔


ویسے توتمام اسلامی مہینے اپنی اپنی خصوصیت رکھتے ہیں مگر ربیع الاول کا مہینہ اس لئے زیادہ خاص ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی کو یہ کہہ کر اس روئے زمین پربھیجا کہ اب تاقیامت کوئی نبی نہیں آئے گا، نبوت کا سلسلہ اسی شافع محشر پر ختم ہوتا ہے۔ ربیع الاول کی دو تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرم کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اہلسنت 12 ربیع الاول جبکہ اہل تشیع 17 ربیع الاول کو حضور کا جشن ولادت مناتے ہیں۔ 12 اور17ربیع الاول کے درمیان فرق کو ختم کرکے مسلمانوں کو اور قریب لانے کے لیے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے ’ہفتہ وحدت ‘ کا اعلان کیا جو 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔

امام خمینیؒ نے 27 نومبر 1981ء کو عالم اسلام کا تاریخی اور وحدت سے بھرپور قدم اٹھایا اور 12 سے 17 دونوں تاریخوں کو ملا کر پورے ہفتے کو ہفتہ وحدت کا نام دے دیا تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی برکت اور طفیل سے اہل تشیّع اور اہلسنت آپس کے اختلافات حتی کہ حضور اکرم کی تاریخ ولادت کے اختلاف کو بھی بھلا کر وحدت اور اتحاد کا مظاہرہ کر سکیں۔ وحدت اسلامی کے اس عملی اقدام نے مسلمانوں کے درمیان پیار و محبت، بھائی چارے اور وحدت کی نئی روح پھونک دی۔ اسی طرح ہفتہ وحدت کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد اور ہم بستگی کے لئے زمینہ ہموار کرنے اور علما اور دانشوروں کے مابین ہم فکری ایجاد کرنے کیلئے ہر سال ایران میں عظیم الشان بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔


آج دنیا جوں جوں عالم اسلام سے دشمنی کے لیے انتہائی اقدامات کر رہی ہے۔ الٹا اسلام دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں میں روز بروز دشمنوں کی سازشوں کے حوالے سے شعور پیدا ہو رہا ہے۔ بہرحال 12 سے 17 ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔ ہفتہ وحدت میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کریں، ایک دوسرے سے دشمنی کوفراموش کردیں۔ اس کے لیے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ طویل تاریخ میں اسلام کا حقیقی درد رکھنے والوں نے ہمیشہ وحدت کی بات کی ہے۔ کسی اختلاف رائے کو بنیاد بنا کر نفرتوں کے آتش کدے روشن کرنے والے اسلام اور سلامتی کی بات کر بھی کیسے سکتے ہیں۔ ایسے شیطان صفتو ں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بھی عاشقان رسول کا وحدت کے پلیٹ فارم پر جمع ہونا ناگزیر ہے۔ حق تو یہی تھا کہ رسولِ واحد کی امت، امتِ واحدہ ہی ہوتی۔ جس نبی رحمت نے انسان کے ہر قسم کے ننگ و عار کو لباس تقویٰ عطا کیا ہو، اسے بتانِ رنگا رنگ سے نجات دلا کر خدائے وحدہ لاشریک سے آگاہی عطا کی ہو، نفرتوں کے آتش کدے بجھا کر محبتوں کے دیئے روشن کیے ہوں، غرض دم توڑتی انسانیت کو اپنے کردار کی بلندیوں سے معراج انسانیت عطا کی ہو۔ اسے عشق تو زیب دیتا ہی ہے۔


مگرکیا ہم ایسے عاشق زیب دیتے ہیں۔۔۔؟!! لہٰذا چاہیے کہ ہم اپنے افعال و کردار کی نگرانی کریں تاکہ اخوت و محبت کے ساتھ وحدت کلی پیدا ہو سکے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری ہے کہ امت کے لئے درد دل رکھنے والے ’وحدت فعلی‘ کے ساتھ’وحدت فکری‘ پر کام کریں۔ شعوری اور فکری ایثار کو بیان کیا جائے۔ اپنے حصے کی روٹی دینا آسان لیکن اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا بہرحال مشکل کام ہے اور در حقیقت اسی احساس کا پیدا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یکجہتی کا مطلب اپنا اپنا راستہ ناپنا نہیں بلکہ ایک ہی جہت میں آگے بڑھنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم سچے اور اچھے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے شعوری اور فکری ایثار کو اپنی زندگیوں میں شامل کرلیں۔ اپنے موقف میں لچک پیدا کرکے دوسروں کی فکر کو اپنی فکر میں شامل کریں۔

اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراو اور تنازعے سے گریزہے۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جائے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ وحدت اسلامی سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے سارے فرق و مذاھب اپنے اپنے عقاید کے مطابق عمل کریں لیکن علمی بحث اور گفتگو کا دروازہ کھلا رہے تاکہ مسلمان آپس میں بحث اور مباحثہ کرسکے اور بہترین نتایج حاصل ہوسکیں لیکن سارے مسلمان فرق و مذاھب کا مشترک دشمن کے مدمقابل ایک ہونا یہی حقیقت میں وحدت اسلامی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔