جون ایلیا کو جون ایلیا بنانے والے مولانا عبادت حسین کلیم امروہوی
اردو شاعری میں جون کو جون بنانے والی شخصیت کوئی اور نہیں مولانا عبادت حسین کلیم کی شخصیت ہے۔ جون ایلیا سے کون واقف نہیں ہے گوگل پر جس اردو شاعر کو سب سے زیادہ سرچ کیا جاتا ہے وہ جون ایلیا ہے۔
علم و ادب کے حوالے سے امروہہ کی حیثیت کئی لحاظ سے منفرد و یکتا ہے۔ امروہہ کو مصحفی جیسے استاد شاعر کا وطن ہونے کا شرف حاصل ہے جس نے شاعری کی دنیا میں سب سے زیادہ شاگرد چھوڑے۔ امام غزل میر تقی میر کے استاد میر سعادت کا وطن عزیز ہونے کا شرف بھی اسی سرزمین کے حصے میں آیا ہے اور دور حاضر کے میر جون ایلیا نے جس شخصیت کے سامنے شاعری میں زانوے ادب طے کیا اس کا تعلق بھی امروہہ سے ہی ہے۔ جی ہاں اردو شاعری میں جون کو جون بنانے والی شخصیت کوئی اور نہیں مولانا عبادت حسین کلیم کی شخصیت ہے۔ جون ایلیا سے کون واقف نہیں ہے گوگل پر جس اردو شاعر کو سب سے زیادہ سرچ کیا جاتا ہے وہ جون ایلیا ہے، جون ایلیا نے اپنے استاد کو اس شعر کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا۔
ہائے دہلیز حضرت استاد
ہو گیا ہوں میں کتنا بے بنیاد
یہ بھی پڑھیں : منفرد طرز کا انشائیہ نگار ساجد جلال پوری... جمال عباس فہمی
شاگردی کے حوالے سے ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جون ایلیا کے والد شفیق حسن ایلیا عبادت حسین کلیم کے والد اولاد حسن سلیم کے شاگرد تھے۔ عبادت حسین کلیم عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ اردو کے ساتھ ساتھ عربی میں بھی شعر گوئی کرتے تھے۔ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔ نثر اور نظم دونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ مرثیہ کے علاوہ عبادت حسین کلیم نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور بیش قیمتی ادبی سرمایہ چھوڑا۔ زندگی کے آخری ایام تک شہر کی جامع مسجد کے امام جمعہ وجماعت تھے۔ مولانا عبادت حسین کلیم امروہوی کی قلمی کاوشوں کا تفصیل سے جائزہ لینے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے بارے میں معلومات حاصل کئے لیتے ہیں۔
عبادت حسین کلیم کا تعلق امروہہ کے اس گھرانے سے ہے جس کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ 'ایں خانہ تمام آفتاب است'۔ اس خانوادے میں اپنے وقت کے جید علما، دانشور اور فنون لطیفہ کے ماہرین گزرے ہیں۔ مولانا عبادت حسین کلیم کے والد مولانا اولاد حسن سلیم اپنے دور کے جید عالم، مستند شاعر اور خطاط تھے۔ مولانا اولاد حسن سلیم کی پسندیدہ صنف سخن رباعی تھی۔ انہیں رباعی میں ادق مضامین نظم کرنے پر ملکہ حاصل تھا۔ مولانا عبادت حسین کلیم 6 فروری 1911 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تاریخی نام حسین اختر تھا لیکن محمد عبادت کے نام سے مشہور ہوئے اور ادبی دنیا میں عبادت حسین کلیم کہلائے۔ ۔عبادت حسین کم عمری میں باپ کے شفیق سایہ سے محروم ہو گئے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اس وقت کی عظیم علمی اور دینی شخصیت حاجی مرتضیٰ حسین نے قبول کی اور اپنے بیٹے کی طرح نگہداشت کی۔ عبادت حسین کی ابتدائی تعلیم مدرسہ نور المدارس میں ہوئی۔ انہوں نے کچھ عرصہ تک میرٹھ کے منصبیہ عربی کالج میں بھی درس لیا۔ مولانا عبادت حسین نے لکھنؤ کے قدیم دینی ادارے 'مدرسہ ناظمیہ' میں بھی لائق و فائق اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ انہوں نے اس دور کے عظیم فلسفی مولانا مظاہر حسین اور مفتی سید احمد علی سے اصول فقہ اور فقہ استدلالی کی باریکیاں سیکھیں۔ مولانا عبادت نے عراق میں آیت اللہ محسن الحکیم اور آقائے خوئی کے درس خارج میں بھی حصہ لیا۔ مولانا عبادت نے 1932 سے لیکر اپنی زندگی کے آخری وقت تک شہر کی شیعہ جامع مسجد کی امامت کی۔ ان کا انتقال 22 اکتوبر1989 کو ہوا۔
مولانا عبادت فطری طور پر شاعر تھے، شاعری کے بعد ان کا پسندہ مشغلہ درس و تدریس تھا۔ وہ علم جفر و رمل اور علم الانساب کے بھی ماہر تھے۔ خوش نویسی تو انہیں والد سے ورثے میں ملی تھی۔ فن سپہ گری میں بھی طاق تھے۔ تاریخ گوئی کے بھی ماہر تھے۔ صرف و نحو کی باریکیوں سے کما حقہ واقف تھے۔ عربی ادب پر گہری نظر تھی۔ عربی ادب کی نثر اور نظم دونوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ شاعری میں مولانا عبادت نے علامہ اقبال، داغ دہلوی، حسرت موہانی، مولانا الطاف حسین حالی، جگر مراد آبادی، فانی بدایونی اور بیخود دہلوی کے ہم عصر اظفر حسین منتظر امروہوی کے سامنے زانوئے تلمز طے کیا۔ مولانا نے تین کتابیں 'رسالہ سراج الفقیہ' 'الاستفسار فی نجاست المشرکین' اور الکحل' عربی میں تحریر کیں۔ اور تین کتابیں اردو میں تحریر کیں۔ 'مقام شبیری'، 'عقیدہ رجعت' اور 'رموز و اسرار' میں 'مقام شبیری' کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی شعری تخلیقات ان کے انتقال کے بعد ان کے پوتے ڈاکٹر سید احسن اختر سروش کی کاوشوں کی بدولت منظر عام پر آسکیں۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ 'صد غزل' کے عنوان سے 2004 میں اور2011 میں نعت و منقبت کا مجموعہ 'تجلیات کلیم' کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔
مولانا عبادت نے شاعری میں تجربے بھی کئے۔ انہوں نے اپنے ذوق کی تسکین کی خاطر بغیر الف، بغیر نقطہ اور دو دو قوافی والی نعتیں اور منقبتیں نظم کیں۔ بغیر الف کے استعمال کے ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔
گیسوئے شب رنگ کو روئے منور پہ دیکھ
سلسلہ روز و شب حسن کے محور پہ دیکھ
دیکھ تو ہجرت کی شب زینت بستر ہے کون
بیت نبوت میں ڈھونڈ دوش پیمبر پہ دیکھ
.....
بے نقط کلام کا نمونہ یہ ہے
صدر اولاد رسول دوسرا
حاکم دہر مطاع اعلیٰ
سحر گلکدہ اہل کسا
مطلع مہر علوم طاہا
دو قوافی کے التزام کے ساتھ غیر مردف زمین میں ان کے یہ اشعار استادانہ شان رکھتے ہیں۔
جس کو ہو مرے مولا تیری الفت تری چاہ
اس کے دل میں ہو بھلا خوف قیامت اے واہ
مجھ پہ ہو جائے اگر ایک عنایت کی نگاہ
مثل میثم کے بنوں میں بھی مشیت آگاہ
مولانا عبادت کو اپنے بیان اور اسلوب کا احساس تھا تب ہی تو بہ انداز تعلیٰ کہا۔
کیا سلاست ہے کیا روانی ہے
موج گنگ و جمن ہے ہر ہر لفظ
.....
در مقصود ان میں پنہاں ہے
افتخار عدن ہے ہر ہر لفظ
مولانا عبادت غالب، علامہ اقبال اور میر تقی میر سے بہت متاثر تھے۔ ان کی شاعری میں ان تینوں شعرا کا رنگ جھلکتا ہے۔ اقبال کی ہی زمین میں مولانا نے کیا خوب حمدیہ اشعار نظم کئے ہیں۔
ہر نفس لا الہ الا اللہ
اور بس لا الہ الا اللہ
شش جہت تحت و فوق اور چپ و راست
پیش و پس لا الہ الا اللہ
کہہ رہے ہیں برائے حرص و ہوا
بوالہوس لا الہ الا اللہ
حب حیدر بغیر ہے بیکار
ہم نفس لا الہ الا اللہ
میر کا مشہور شعر ہے
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
اس مضمون کو انہوں نے دوسرے انداز میں باندھا۔
ضو پاشی کی حسرت ہی رہی جس کو ہمیشہ
میں خانہ مفلس کا وہ خاموش دیا ہوں
.....
میر کا مشہور شعر ہے
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
اور مولانا کیا فرماتے ہیں۔
یہ چارہ گری کا وقت نہیں اب چارہ گری سے کیا حاصل
بیمار کی نبضیں چھوٹ گئیں، دل بیٹھ گیا، دم ٹوٹ گیا
فانی بدایونی کے رنگ میں عبادت حسین کلیم کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے
زندگی سلسلہ غم ہے کلیم
کاش یہ پاؤں کی بیڑی کٹ جائے
غم اور خوشی کے فلسفے کو عبادت کلیم نے کتنے منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔
رات بھر ہے شبنم کی خوب روئے جی بھر کر
صبح ہوتے غنچوں کو قہقہ لگانا ہے۔
مولانا کے کلام میں امروہوی لہجہ اپنی پوری آب و تاب اور آہنگ کے ساتھ نظر آتا ہے۔
جو کوئی تم کو انگارے کھلا دے
تو غصہ کر کے شعلہ مت اگلیو
.....
مجھے درپیش ہو جو قبر کی راہ
تو تھوڑی دور تم بھی ساتھ چلیو
.....
نہ گم کردے کہیں راہوں کی کثرت
سمجھ کر سوچ کر رستہ بدلیو
.....
کلیم آگے بہت پھسلن ہے شاید
سنبھل کر دیکھ کر آگے کو چلیو
عبادت حسین کلیم کا گھرانہ علم و ادب کا گھرانہ ہے۔ ان کے بڑے فرزند مولانا ڈاکٹر سیادت حسین فہمی امروہہ کے ایک ڈگری کالج کے شعبہ اردو کے سربراہ رہے اور اس وقت شیعہ جامع مسجد کے پیش امام ہیں۔ ان سے چھوٹے فرزند سید مبارک حسین بی پی اینڈ سی ایل الہ آباد سے وابستہ رہے اور ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ان سے چھوٹے فرزند شفاعت فہیم منفرد لہجے کے شاعر تھے ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ سب سے چھوٹے فرزند پروفیسر حسنین اختر نقوی دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر سیادت فہمی کے فرزند ڈاکٹر احسن اختر سروش عالم دین بھی ہیں۔ خوش فکر شاعر بھی ہیں اور خانوادے کے اہل قلم حضرات کی کتابوں کے مرتب بھی ہیں۔ عبادت حسین کلیم نے مختلف موضوعات پر درجنوں مقالے عربی اور اردو میں تحریر کئے جن کو زیور طباعت سے آراستہ کرنے کا بیڑا ڈاکٹر احسن اختر سروش نے اٹھا رکھا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔