مولانا ابولکلام آزاد کی پاکستان کے لئے پیشن گوئی، جو سچ ثابت ہوئی... یومِ وفات کے موقع پر
مولانا ابوالکلام آزاد نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت پہلے پیشن گوئی کر دی تھی، جو سچ ثابت ہو رہی ہے۔ مولانا آزاد کے یومِ وفات کے موقع پیش ہیں ان کے پاکستان کے لئے تاثرات:
پاکستان کی معاشی حالت پوری دنیا میں موضوع بحث بن چکی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ورلڈ بینک اور باقی دنیا سے مسلسل مدد کی درخواست کر رہے ہیں اور ملک معاشی بحران، دہشت گردی سمیت کئی مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر بننے والا پاکستان آج بری طرح پریشان نظر آ رہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت پہلے پیشن گوئی کر دی تھی، جو سچ ثابت ہو رہی ہے۔ مولانا آزاد کے یومِ وفات کے موقع پیش ہیں ان کے پاکستان کے لئے تاثرات:
مولانا آزاد نے ہندوستان کی آزادی کے بعد کہا تھا ”ہندوستان نے اگرچہ آزادی حاصل کر لی لیکن اس کا اتحاد باقی نہیں رہا۔ پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے اس میں برسراقتدار طبقہ وہ ہے جو برطانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے۔ اس کے طرز عمل میں خدمت خلق اور قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں رہا ہے، اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے یہ لوگ پبلک کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔“
مولانا آزاد نے ایک اور جگہ پر کہا تھا کہ کیا پاکستان کے قیام سے، فرقہ وارانہ مسئلہ حل ہو گیا؟ کیا یہ مسئلہ اب پہلے سے زیادہ شدید اور ضرر رساں نہیں بن گیا ہے؟ جب تقسیم کی بنیاد ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت پر رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافرت ایک آئینی شکل اختیار کرگئی ہے اور اس کا حل اب اور مشکل ہوگیا ہے۔ برصغیر دو ریاستوں میں تقسیم ہوگیا ہے اور یہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کو نفرت و ہراس کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ ہندوستان اسے اطمینان سے جینے نہیں دے گا، اور جب بھی اسے موقعہ ملے گا، وہ اسے نیست و نابود کردے گا۔ ہندوستان کو بھی یہ ڈر ہے کہ جب بھی پاکستان کو موقع ملے گا، وہ اس پر حملہ کرے گا۔ اس طرح دونوں ملک خوف و ہراس کے تحت اپنا فوجی خرچ بڑھاتے رہنے پر مجبور رہیں گے، اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔
پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مولانا آزاد نے دو بڑی پیش گوئیاں کی جن میں سے ایک یہ کہ بنگال کی علیحدگی کا امکان اور دوسرا پنجاب، سندھ، سرحد کے درمیان کشیدگی کا اندیشہ۔ مولانا آزاد نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شاید جناح اور ان کے ساتھی یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ جغرافیائی صورت حال ان کے موافق نہیں ہے۔ سارے برصغیر میں مسلمان اس طرح بکھرے ہوئے تھے کہ صرف ایک ہی علاقہ میں ان کی جداگانہ ریاست کا قیام ممکن نہیں تھا۔
مسلمان مشرق اور شمال مغرب کے علاقوں میں اکثریت میں تھے۔ لیکن یہ دونوں علاقے کسی جگہ بھی ایک دوسرے سے ملحق نہیں ہیں اور یہاں کے باشندے مذہب کے سوا ہر لحاظ سے ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ یہ بات کہ صرف مذہبی یگانگت، دو ایسے علاقوں کو متحد رکھنے کے لئے جو جغرافیائی، معاشی، لسانی اور معاشرتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں، فریب دہی اور خود فریبی سے کم نہیں ہے۔
بے شک اسلامی تعلیمات، نسلی، لسانی، معاشی اور سیاسی حد بندیوں سے بالاتر ہیں، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ زیادہ سے زیادہ پہلی صدی کو چھوڑ کر سارے مسلمان ممالک صرف اسلام کی اساس پر اپنے آپ متحد نہیں کرسکے۔ کون توقع کر سکتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اختلافات دور ہوجائیں گے اور یہ دونوں علاقے ایک قوم بن جائیں گے۔ مغربی پاکستان کے اندر بھی سندھ، پنجاب، سرحد اپنے اپنے جداگانہ مفاد ومقاصد کے لئے کوشاں نہ ہوں گے۔ تاہم پاکستان کی نئی ریاست اب ایک حقیقت ہے اور ہندوستان و پاکستان دونوں کا فائدہ و سلامتی اس میں ہے کہ باہم دوستانہ تعلقات بڑھائیں اور اشتراک عمل کریں۔ اس کے خلاف کوئی پالیسی اپنائی گئی تو وہ نئے اور بڑے مصائب وآلام کا باعث بن سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔