مولانا ابوالکلام آزاد: ایک عبقری شخصیت... مفتی محمد مشتاق تجاروی

علوم و فنون میں مہارت کے ساتھ اللہ نے مولانا آزاد کو قلم و زبان بھی ایسی شعلہ بار عطا فرمائی تھی کہ زبان سے نکلا ہوا لفظ حق کا ترجمان محسوس ہوتا تھا اور قلم سے نکلا ہوا حرف نوشتہ تقدیر محسوس ہوتا تھا

مولانا ابوالکلام آزاد، تصویر آئی اے این ایس
مولانا ابوالکلام آزاد، تصویر آئی اے این ایس
user

محمد مشتاق تجاروی

مولانا ابوالکلام آزاد کا پورا نام محی الدین احمد ابوالکلام آزاد تھا۔ ان کے والد کلکتہ کے رہنے والے تھے اور ان کی والدہ مکہ مکرمہ کی رہنے والی تھیں۔ مکہ مکرمہ میں ہی ان کی ولادت ہوئی۔ پانچ سال کی عمر تک وہیں قیام رہا، پھر اپنے والدین کے ہمراہ کلکتہ آ گئے۔ فطرت نے مولانا کو ایسی غیر معمولی صلاحیتیں بخشی تھیں جو شاذ و نادر ہی کسی کو ملتی ہیں۔ مولانا جو سیکھتے ان میں مہارت حاصل کر لیتے، اور جو پڑھتے اس میں درجہ اجتہاد حاصل کر لیتے۔ ان کے والد ایک صاحب سلسلہ اور صاحب خانقاہ پیر تھے۔ ان کے مریدین بھی مولانا کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لیتے تھے۔ اس طرح مولانا نے کم عمر میں ہی اسلامی علوم اور بعض عصری علوم میں کامل دستگاہ حاصل کر لی۔

علوم و فنون میں مہارت کے ساتھ اللہ نے ان کو قلم و زبان بھی ایسی شعلہ بار عطا فرمائی تھی کہ زبان سے نکلا ہوا لفظ حق کا ترجمان محسوس ہوتا تھا اور قلم سے نکلا ہوا حرف نوشتہ تقدیر محسوس ہوتا تھا۔ نہایت کم عمری میں یعنی صرف 14 سال کی عمر میں انھوں نے ایک میگزین نکالی اور خود اس کے ایڈیٹر بن گئے۔ چند ماہ کے بعد میگزین تو بند ہو گئی لیکن دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ اب افق صحافت پر کسی نئے آفتاب کی آمد آمد ہے۔ چنانچہ اس کے کچھ دن بعد مولانا نے ’الہلال‘ نکالا۔ یہ وہ اخبار تھا جس کی وجہ سے برطانیہ عظمی کے ایوانوں میں تزلزل پیدا ہو گیا۔ لوگوں کو آزادی کی قیمت کا احساس ہوا اور لوگ ملک کو برطانوی سامراج کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ’الہلال‘ ایسی گھن گرج کے سااتھ نکلا تھا کہ اہل وطن کے لیے وہ ناتوس آزادی بن گیا اور سامراجی طاقتوں کے لیے وہ طفل جنگ بن گیا۔


ظالم سامراجی طاقتیں ’الہلال‘ کی آواز کو زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کر سکی اور انھوں نے نہایت بزدلانہ طریقے سے نام نہاد قانون کا سہارا لے کر اس کو بند کرا دیا اور مولانا آزاد کو بھی قید و بند کی فکر میں لگ گئے۔ تاہم ان کو وطن سے دور رانچی میں نظربند کرنے پر اکتفا کیا۔

’الہلال‘ کی آواز بند ہو گئی لیکن جو جوش و ولولہ انہوں نے لوگوں میں بھر دیا تھا بالآخر وہ ملک کی آزادی تک جاری رہا۔ مولانا ابوالکلام نے رانچی میں اپنی نظربندی کے ایام کو انسانیت کی خدمت اور علم کی اشاعت کے لیے وقف کر دیا۔ اس دوران انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی اور ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ ان کا قائم کردہ ادارہ آج بھی خدمت خلق میں مصروف ہے اور ان کی تفسیر سے لوگ آج بھی کلام الٰہی کے معانی سمجھنے میں تعاون لیتے ہیں۔


رانچی کی سرزمین اس شہباز کو زیادہ دن تک اپنے دامن میں نہ روک سکی۔ جلد ہی مولانا وہاں سے نکلے اور قومی تحریک آزادی کی قیادت کرنے لگے۔ مولانا اپنے عہد کے سب سے قدآور، سب سے ہوشمند اور سب سے زیادہ دور رس رہنما تھے۔ اہل وطن بلا لحاظ مذہب و ملت ان پر بھروسہ کرتے تھے۔ خاندانی طور پر بھی وہ بڑے باوقار اور معزز تھے اور علم و ذہانت میں تو ان کو حصہ وافر ملا تھا۔ اس لیے کچھ نااہل اور نام نہاد لوگوں نے قیادت کی ہوس میں اوچھے ہتھیار استعمال کیے اور ملک میں تقسیم کا ایک شوشہ چھوڑا۔ مولانا آزاد اس کے سخت خلاف تھے۔ مولانا سمجھتے تھے کہ ملک کی تقسیم دنیائے انسانیت کا نقصان ہوگا۔ اس کے لیے انھوں نے ہر طرح کی قربانی دی۔ لیکن بہر حال ملک تو تقسیم ہو گیا، لیکن اس وقت بھی باشعور لوگ جانتے تھے اور وقت کی رفتار دن بہ دن اس کو مزید واضح کر رہی ہے کہ ملک کی تقسیم نہ صرف مسلمانوں کے لیے نہایت مضر اثرات کی حامل تھی بلکہ پوری دنیائے انسانیت کے لیے یہ بہت نقصان دہ ثابت ہوئی اور تقسیم کے دوران جو ظلم و زیادتی انسانوں پر ہوئی وہ مستزاد ہے۔

مولانا آزاد ایک قائد تھے، رہبر تھے، رہنما تھے۔ وہ جہاں رہے لوگوں کی قیادت کرتے رہے۔ انھوں نے ہمہ وقت لوگوں کو صحیح راستہ دکھایا۔ آزادی سے پہلے انھوں نے آزادی کا سبق سکھایا، اور آزادی کے بعد انھوں نے ترقی کا راستہ دکھایا۔ تعلیم ترقی کا سب سے بڑا راستہ ہے۔ مولانا آزاد ملک کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے اور انھوں نے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے وہ بنیادیں قائم کیں جن پر گامزن ہو کر آج ہمارا ملک دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو رہا ہے۔


مولانا آزاد نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے آئی آئی ٹی بنائے، ملک کے قیمتی اثاثے کو محفوظ کرنے کے لیے نیشنل میوزیم بنائے، ملک کی ثقاتی روایت کو منضبط کرنے کے لیے للت کلا کیندر بنائے اور مجموعی طور پر تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے یو جی سی بنائے۔ یہ سب ادارے مولانا آزاد کی عبقریت کا نشان ہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں ان اداروں کا غیر معمولی کردار ہے۔

مولانا آزاد کو قوم نے بھی بڑھ چڑھ کر خراج عقیدت پیش کیا۔ قومی یوم تعلیم مولانا آزاد سے منسوب ہے۔ ملک کے اندر مرکزی اور ریاستی سطح کے کم از کم ایک درجن ادارے مولانا آزاد کے نام سے منسوب ہیں۔ ملک کا صف اول کا میڈیکل کالج بھی ان کے نام پر ہے اور ایک سنٹرل یونیورسٹی بھی مولانا کے نام پر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔