’جے ہند‘ کے خالق میجر سید عابد حسن زعفرانی حیدرآبادی (39ویں یومِ وفات کے موقع پر خصوصی پیشکش)
سید عابد حسن زعفرانی 11 اپریل 1912ء کو تلنگانہ کی دارالحکومت حیدرآباد کے ایک محب وطن گھرانے میں پیدا ہوئے اور 5 اپریل 1984ء کو حیدر آباد میں ہی آخری سانس لی۔
نتیاجی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج میں ہندوستان کے جن جگر گوشوں نے کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا ان میں میجرسید عابد حسن نتیاجی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج میں ہندوستان کے جن جگر گوشوں نے کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا ان میں میجرسید عابد حسن زعفرانی حیدرآبادی کا نام سرفہرست ہے جو سبھاش چندر بوس کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے ایک تھے قابل غور بات یہ ہے کہ ’جے ہند‘ جیسے جادوئی نعرہ کے خالق ہونے کے علاوہ سبھاش چندر بوس کو ’نیتا جی‘ کا خطاب عطا کرنے کا سہرا بھی عابد حسن کے سر ہی جاتا ہے، جنہوں نے انہیں جرمنی میں نیتا جی کہہ کر پکارا جس کی وجہ سے سبھاش چندر بوس سارے عالم میں نیتا جی کے لقب سے مقبول ہوئے مگر ستم بالائے ستم ملک و قوم عابد حسن کی قربانیوں کو وہ مقام نہ دے سکی جس کے وہ اصل حقد ار تھے۔
سید عابد حسن زعفرانی 11 اپریل 1912ء کو تلنگانہ کی دارالحکومت حیدرآباد کے ایک محب و طن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امیر حسن عثمانیہ یونیورسٹی میں ڈین کے عہدے پر فائز تھے اور والدہ فخر الحاجیہ بیگم ایک مجاہد آزادی تھیں۔ سید عابد کا اصل نام زین العابدین حسن تھا۔ ماں کے جذبہ حب الوطنی کا اثر عابد پر بھی پڑا، لہٰذا وہ تحریک جدوجہد آزادی میں شریک ہوگئے۔ جنہوں نے سول نافرمانی میں حصّہ لینے کے لیے اپنے کالج کو خیر باد کہہ دیا اور 1931ء میں سابرمتی آشرم جا پہنچے، جہاں انہوں نے ایک مختصر عرصہ گزارا۔ بعد ازاں عابد حسن کا رجحان عدم تشد د سے تشدد کی طرف مائل ہوگیا کیونکہ ان کے نزدیک صرف مسلح جدوجہد ہی ہندوستان کو برطانوی تسلط سے آزادی دلا سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے انقلابی انجمن کے رکن کے طور پر ناسک جیل میں ریفائیری کو تباہ کرنے کی کوشش میں حصّہ لیا۔ جس کے نتیجے میں انہیں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن ’گاندھی:ارون معاہدے‘ کی وجہ سے انہیں سزا کی تکمیل سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا۔
عابد حسن زعفرانی تقریباً ایک دہائی تک انڈین نیشنل کانگریس میں سرگرم عمل رہے۔ بعد ازاں انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے لیے برلن چلے گئے، جہاں ان کی ملاقات انڈین نیشنل آرمی کے رہنما سبھاش چندر بوس سے ہوئی۔ وہ ان کے ایثار اور قربانی کے جذبہ سے بے حد متاثر ہوئے چنانچہ انہوں نے آزاد ہند فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1940ء کی دہائی میں سبھاش چندر بوس کو آزاد ہند فوج کے سپاہیوں کے لیے ایک ایسے سلام کی اشد ضرور ت محسوس ہوئی، جومختلف زبانوں، ثقافتوں اور عقائد کے حامل لوگوں کو شیر وشکر کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے ایک سلام تخلیق کرنے کو کہا تو سب نے اپنے اپنے سلام پیش کیے لیکن عابد حسن نے جو سلام پیش کیا وہ ایسا سلام تھا جو سب پر بھاری تھا اور سبھی نے متفقہ طور پر ان کے سلام ’جے ہند‘ کو منظور ی دے دی، جس کو نومبر 1941ء میں برلن میں منعقد فری انڈیا سینٹر کی پہلی میٹنگ میں قومی نعرے کے طور پر اپنایا گیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے سبھاش چندر بوس کو ’نیتا جی‘ کے خطاب سے پکارا جو ان کے نام کا اہم جز بن گیا اور اسی لقب سے پوری دنیا میں مقبول ہوئے۔
عابد حسن نے تقریباً دو سال تک سبھاش چندر بوس کے سیکرٹری کے طور پر کام کیا اور آزاد ہند فوج کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے پوری دنیا کا چکر کاٹا۔ عابد نے 8 /فروری 1943ء کو جرمنی سے ایشیا کی مہم جوئی کے دوران سبھاش چندر بوس کے ساتھ سب میرین میں بھی سفر کیا۔ عابد حسن کو نیتا جی نے انڈین نیشنل آرمی کی گاندھی بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا تھا۔ انہیں بھی امپھال میں انڈین نیشنل آرمی کے دیگر افسران کے ساتھ انگریزوں نے گرفتار کر لیا تھا اور کچھ عرصہ قید فرنگ کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ جب 1947ء میں ہندوستان کو برطانوی غلامی سے آزادی حاصل ہوئی اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے میجر عابد حسن کی حب الوطنی اور بے لوث خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیر اعظم ہند کی ایما پر عابد حسن نے وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی اور پیکنگ (بیجنگ) اور قاہرہ میں پہلے سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے دمشق، بغداد اور ڈنمارک میں قونصل جنرل کے طور پر بھی کام کیا۔ سید عابد حسن زعفرانی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی وطن شہر حیدرآباد واپس آئے جہاں انہوں نے 5 اپریل 1984ء کو آخری سانس لی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔