اپنوں میں اجنبی مہاتما گاندھی... ڈاکٹر درفیشاں چاندنی

انگریزوں سے لڑ کر جیتنے والا مہاتما آخرکار اپنوں سے ہار گیا۔ ساری دنیا کو امن اور محبت کا پیغام دینے والا نفرت کا شکار ہو گیا۔ ظالم ہاتھوں نے 30 جنوری کو باپو کو ہم سے چھین لیا۔

<div class="paragraphs"><p>مہاتما گاندھی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

مہاتما گاندھی، تصویر آئی اے این ایس

user

درفیشاں چاندنی

آج مہاتما گاندھی کی شہادت کا دن ہے وہ مہان آتما جس نے بھائی چارگی، اخوت، اہنسا، عدم تشدد کا پیغام اپنی قوم کو دیا اور جسے ساری دنیا نے بھی اپنایا، وہ مہاتما جس نے اپنے عزم اور مضبوط ارادوں کے ذریعہ پوری دنیا پر راج کرنے والے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ آج ہی کے دن ہم نے اپنے باپو کے احسان کا بدلہ ان کی جان لیکر لیا۔ عبادت کے لئے جا رہے باپو کے کمزور اور ناتواں جسم میں گولیوں کی بوچھار کر دی گئی اور باپو کو ہم سے چھین لیا گیا۔

موہن داس کرم چند گاندھی ایک غیر معمولی انسان تھے اور ان کی پوری زِندگی غیر معمولی کارناموں سے بھری ہوئی ہے، یہ بات بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اُس وقت جب اُن کی برادری میں سمندر پار کا سفر کر نا منع تھا اور اسے دھرم بھرشٹ کے روپ میں مانا جاتا تھا، گاندھی جی اس وقت اس دقیانوسی خیالات کو نظرِ انداز کر کے سات سمندر پار وکالت پڑھنے کے لیے گئے۔ انھوں نے لندن میں رہ کر اپنی پڑھائی پوری کی۔ اس بیچ انہیں بہت سی دشواریوں سے گزرنا پڑا، کبھی پیسے بچانے کی خاطر بہت زیادہ پیدل چلنا پڑا، تو کبھی وہاں کورٹ میں پگڑی نہ پہن پانے کی ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا، کبھی وہاں کھانا کھانے والے ریسٹورنٹس پر، "ہندوستانی اور کتوں کا داخلہ ممنو ع ہے" لکھا دیکھ کر دل کرب سے تڑپ کر رہ جاتا تھا۔ ایسے دشوار گذار اور تفریق کے ماحول میں انہوں نے اپنی تعلیم پوری کی اور پھر ان جذبات اور احساسات کو سینے میں دبا کر وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔


جنوبی افریقہ میں ظلم کے خلاف لڑنے کے لئے انہیں اپنی منزل کا راستہ دکھائی دیا اور وہ ایک نئی جد وجہد بھرے راستے کی طرف چل پڑے، اس کے بعد پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، جنوبی افریقہ میں انھوں نے انگریزوں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دی۔ جنوبی افریقہ سے اپنا مشن ختم کر کے گاندھی جی ہندوستان واپس آئے۔

وہاں سے ہندوستان آنے والا گاندھی، اندر سے بہت مضبوط ہو چکا تھا اور وہ عوام کا رہبر بن چکا تھا، گاندھی جی کی ایک آواز پر عوام اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار نظر آئی۔ انہوں نے خلافت تحریک، تحریک عدم اعتماد، سودیشی مومینٹ اور دیگر احتجاجی اعمال سے ہندوستان میں انگریزی سامراج کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔


ہندوستان میں باپو کہے جانے والے مہاتما گاندھی کا مجسمہ بھلے ہی تنازع کا سبب بنے یا اُن سے عقیدت نہ رکھنے والے مجسمہ کو نقصان پہنچایا کریں لیکن سینکڑوں سال تک ہندوستان کو غلام رکھنے والے انگریزوں کے ملک میں آج گاندھی جی کا مجسمہ میڈم توساد کے میوزیم میں، دھوتی اور لاٹھی کے ساتھ مسکرا تے ہوئے شان سے کھڑا ہے، جہاں ان کے ساتھ دُنیا کے عظیم ترین لوگوں کے مجسمے نصب ہیں، اس بات سے یہ وا ضع ہوتا ہے کہ دشمن کے دل میں بھی جگہ بنانے والا انسان کوئی غیر معمولی شخصیت کا مالک تھا جس کو انگریزوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔

جس وقت ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنما اقتدار اور حکومت کی سودے بازے میں مصروف تھے۔ جس وقت مادر وطن کے ٹکڑے ہو رہے تھے اس وقت باپو بہار اور بنگال میں امن کا دیپ جلا رہے تھے۔ انھیں اقتدار اور منصب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، انہوں نے کبھی اقتدار کی خواہش نہیں کی، وہ ان سب مادی ضروریات و خواہشات سے بہت اوپر اٹھ چکے تھے، انھوں نے اپنی زندگی میں سادگی اور قربانی کو اپنا نصب العین بنالیا تھا۔


انگریزوں سے لڑ کر جیتنے والا مہاتما آخرکار اپنوں سے ہار گیا۔ ساری دنیا کو امن اور محبت کا پیغام دینے والا نفرت کا شکار ہو گیا۔ ظالم ہاتھوں نے 30 جنوری کو باپو کو ہم سے چھین لیا، قوم کا رہبر اور مسیحا شہید کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔