لوک سبھا انتخابات: راہل گاندھی مین آف دی میچ...سید خرم رضا

انتخابی نتائج کسی کے بھی حق میں ہوں لیکن ’انڈیا‘ اتحاد نے کچھ چیزوں میں برتری حاصل کر لی ہے۔ مبصرین اور لوگ یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ مقابلہ قریبی ہے اور ان انتخابات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی / تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

راہل گاندھی / تصویر بشکریہ ایکس

user

سید خرم رضا

آزادی کے بعد سے ملک میں کئی انتخابات ہوئے اور کئی لوگوں نے انتخابات کے بعد ملک کی قیادت کی۔ ملک میں اس سال بھی عام انتخابات ہو رہے ہیں اور ابھی تک 7 میں سے 6 مرحلوں کے لئے ملک کے عوا م نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے۔ ان انتخابات میں شخصیت کے اعتبار سے جہاں کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی سب سے بہترین سیاست داں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں، وہیں سب سے اہم ایشو رام مندر کی تعمیر نہیں بلکہ آئین کی حفاظت بن کر سامنے آیا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی جے پی کی قیادت والا بر سر اقتدار اتحاد این ڈی اے کا ان انتخابات میں مرکزی موضوع رام مندر کی تعمیر تھا اور ہے جبکہ انڈیا نامی اتحاد آئین کی حفاظت کو اپنا مرکزی موضوع بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ جیسے جیسے انتخابی مہم آگے بڑھی ویسے ویسے انڈیا نامی اتحاد کچھوے کی چال سے آگے بڑھتا نظر آیا اور اس کی چال ایسی تھی کہ وہ کسی کی نظر میں بھی نہیں آیا، اس کے اوپر این ڈی اے نامی اتحاد یعنی خرگوش نے اپنی اچھل کود انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے ہی شروع کر دی تھی اور اس اچھل کود میں 400 پار کا نعرہ دیا گیا۔ اس نعرے کے بعد بیچ میں یہ خرگوش سو گیا اور جب جاگا تو اس اتحاد کے قائد نریندر مودی نے اتحاد کے پرانے آزمودہ نسخے کا استعمال شروع کر دیا اور بہت تیزی کے ساتھ منگل سوتر، بھینس، ٹونٹی اور مجرے کا استعمال اپنی تقاریر میں شروع کر دیا۔


انڈیا نامی اتحاد یعنی کچھوا اپنی اسی چال سے چلتا رہا جس کی وجہ سے 6 مرحلوں کی ووٹنگ کے بعد مبصرین اور لوگوں کی رائے میں اتنی تو تبدیلی آ گئی ہے کہ اب وہ کہنے لگے ہیں ’کچھ نہیں کہا جا سکتا اور مقابلہ ٹکر کا ہے۔‘ انتخابی مہم کے دوران بات یہاں تک پہنچانے کا سہرا کانگریس اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے سر جاتا ہے۔ اس میں دوسرے کھلاڑیوں کا کردار بھی اہم رہا ہے، چاہے وہ آر جے ڈی کے تیجسوی کی نوکری کی بات ہو، اکھلیش کی ’پی ڈی اے‘ کی بات ہو، ادھو ٹھاکرے کا جوش ہو، شرد پوار کی اپنی ساکھ ہو، اسٹالن کی تمل ناڈو میں اپنی مقبولیت ہو یا دیگر پہلو رہے ہوں لیکن وہ مین آف دی میچ نہیں رہے اس سارے کھیل میں مین آف دی میچ راہل گاندھی ہی نظر آ رہے ہیں۔

راہل گاندھی صرف انتخابی مہم کے دوران کھیل کر مین آف دی میچ نہیں بن گئے بلکہ اس کے لئے ان کی ’بھارت جوڑو یاترا‘، ’بھارت جوڑو نیائے یاتراُ اور سب سے اہم ان کا مزاج جس کے تحت انہوں نے خاموشی سے اپنے اوپر تمام حملے اور دوستوں کے جانے کے طعنوں کو برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہنے کا بھی دخل رہا۔ ایک عرصے بعد ہندوستانی سیاست میں یہ ہوا کہ علاقائی سیاسی پارٹیوں کو لڑائی اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کانگریس کی بیساکھیوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کانگریس اگر اکیلے انتخابی میدان میں اترتی تو وہ بڑے فرق سے نہ صرف ہارتی بلکہ کچھ علاقوں میں تو کھاتا بھی نہیں کھول پاتی یعنی کانگریس اور اتحادی پارٹیاں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ کانگریس اور راہل گاندھی نے اتحاد کی کامیابی میں جس بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال سیاسی دنیا میں کم ہی ملتی ہے اور اس کا سہرا راہل گاندھی کے سر ہی جاتا ہے۔


انڈیا نامی اتحاد کچھوے کی دھیمی چال سے آگے بڑھ رہا  ہے جبکہ این ڈی اے نامی اتحاد خرگوش کی طرح اپنی اچھل کود اور تیزی پر یقین رکھے ہوئے ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ گزشتہ دو انتخابات میں اس کو کامیابی اسی تیزی کی وجہ سے ملی تھی جب اس کے مقابلے پر انڈیا نامی اتحاد یعنی دھیمی چال والے لیکن مسلسل چلنے والا کچھوا نہیں تھا۔ انتخابات کے نتائج کچھ بھی آئیں لیکن انڈیا نامی اتحاد نے کچھ چیزوں میں بڑھت بنا لی ہے جیسے مبصرین اور لوگ یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ مقابلہ قریبی ہے اور انتخابات  میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دوسرا یہ کہ پہلی مرتبہ بر سر اقتدار جماعت حزب اختلاف کی پچ پر کھیلنے پر مجبور ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس مرتبہ  راہل گاندھی کی منفی شبیہ بنانے میں بر سر اقتدار اتحاد کے کسی بھی فرد  کی ہمت نہیں ہوئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔