لوک سبھا انتخابات: راہل کی وجہ سے ماحول میں تبدیلی آئی
انتخابات سے قبل حزب اختلاف کا ایک اتحاد یعنی انڈیا کے بینر تلے آنا اور راہل گاندھی کی دوسری یاترا جو مشرق سے مغرب کی جانب نکلی جس کا نام بھارت جوڑو نیائے یاترا رکھا گیا اس نے حزب اختلاف کو طاقت بخشی
پارلیمانی جمہوری نظام میں عام انتخابات کے دوران عام طور پر کئی چہرے سیاسی میدان میں نظر آتے ہیں لیکن ہندوستان کے گزشتہ دو انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کا چہرہ پوری طرح چھایا رہا جس میں دوسرے چہرے کو جگہ نہیں ملی۔ اس میں جہاں ذرائع ابلاغ کا اہم کردار رہا وہیں حزب اختلاف میں بھی کوئی اس طرح کا اپنا مقام نہیں بنا پایا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکزی ذرائع ابلاغ نے حکومت سے سوال کرنے بند کر دئے، الٹا اس نے حزب اختلاف سے سوال پوچھنا اپنا مرکزی فریضہ بنا لیا اور کانگریس اس کی مرکزی تنقید کا نشانہ رہی۔ اس کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں مرکز کو ضرورت سے زیادہ مثبت جگہ ملنے لگی اور اس کے برعکس حزب اختلاف کی ضرورت سے زیادہ منفی شبیہ بنائی جانے لگی، جس کا سیدھا اثر ملک کی سیدھی سادی عوام کے ذہن پر پڑا۔
دو انتخابات جن میں سال 2014 کے انتخابات بدلاؤ کی بنیاد پر لڑے گئے اور سال 2019 کے عام انتخابات قوم پرستی کے نام پر لڑے گئے اور ان دونوں انتخابات میں مرکزی چہرہ نریندر مودی کا ہی تھا اور ذرائع ابلاغ نے باقی سیاسی قائدین کی حیثیت بہت چھوٹی اور منفی کر کے دکھائی۔ لیکن گزشتہ 3 سالوں سے صورتحال میں تبدیلی آئی۔ سال 2020 اور 2021 عالمی وبا کووڈ کی نظر ہو گیا لیکن اس کے بعد سے راہل گاندھی کی جو منفی شبیہ بنائی گئی تھی اس میں دھیرے دھیرے تبدیلی آنی شروع ہوئی اور راہل کے ایک فیصلے نے بر سر اقتدار کے غبارہ سے دھیرے دھیرے ہوا نکالنی شروع کر دی۔
راہل گاندھی کے ایک فیصلے یعنی جنوب سے شمال کی جانب ’بھارت جوڑو یاترا‘ پر نکلنے کے اعلان بھر نے بر سر اقتدار جماعت کی نیند اڑا دی اور یاترا سے متعلق طرح طرح کے سوال کھڑے کئے جانے لگے، جس میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کیا راہل گاندھی اس یاترا کو مکمل کریں گے؟ راہل نے نہ صرف یاترا کو طے وقت پر شروع کیا بلکہ اسے بخوبی مکمل بھی کیا جس نے جہاں راہل کی منفی شبیہ کو مثبت شبیہ میں تبدیل کیا وہیں بر سر اقتدار جماعت کے تمام منصوبوں کو بھی پوری طرح ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے جو بول نہیں رہے تھے انہوں نے بھی بولنا شروع کر دیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ عالمی منڈی میں اڈانی پر سوال اٹھنے لگے اور اس پر مرکز کی خاموشی نے اسے بھی سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کر دیا۔
ملک کے عوام جو مرکزی ذرائع ابلاغ کی ایک ہی دھن سے اکتا چکے تھے انہوں نے یو ٹیوب کی جانب رخ کیا جس کے بعد ذرائع ابلاغ کی دنیا میں یو ٹیوبر نے دھیرے دھیرے اپنا مقام بنانا شروع کر دیا اور بڑی تعداد میں لوگ یو ٹیوبر کا رخ کرنے لگے۔ یو ٹیوبر کی اس ترقی کے بعد ذرائع ابلاغ کی دنیا میں انقلاب آ گیا، جس کی وجہ سے حزب اختلاف کو بھی آواز ملنے لگی۔ اس آواز سے جو عوام ایک ہی دھن سے اکتا گئے تھے ان کو کچھ اور سننے کو ملنے لگا جس کی وجہ سے بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی نظر آئی۔
انتخابات سے قبل حزب اختلاف کا ایک اتحاد یعنی انڈیا کے بینر تلے آنا اور راہل گاندھی کی دوسری یاترا جو مشرق سے مغرب کی جانب نکلی جس کا نام بھارت جوڑو نیائے یاترا رکھا گیا اس نے حزب اختلاف کو طاقت بخشی۔ اتحاد نے کئی مرتبہ ہچکولے کھائے، جس میں نیتش اور جینت چودھری کا اتحاد چھوڑ کر جانا سب سے بڑا دھکا ثابت ہوا لیکن باقی حزب اختلاف ایک جٹ رہا اور آج بر سر اقتدار جماعت کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھرا ہے۔
اس سب کے دوران راہل گاندھی کی اصل شبیہ سامنے آئی جو نہ تو نتیش کے جانے سے گھبرائے اور نہ ہی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کی وفاداریاں تبدیل کرنے پر برہم ہوئے کیونکہ ان کے سامنے دوسرا مقصد اور ہدف تھا۔ انہوں نے جہاں اپنے اتحادیوں کی ہر بات سہی چاہے وہ پورنیا سے پپو یادو کو ٹکٹ نہ دینا ہو یا ممبئی میں ایک ٹکٹ نہ دئے جانے سے ناراض ہو کر کانگریس کے سینئر رہنما سنجے نروپم کا پارٹی سے علیحدہ ہونا ہو۔ راہل نے اس معاملے میں جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اس نے راہل کی شبیہ میں چار چاند ہی لگائے ہیں اور راہل گاندھی نے جس قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے ملک میں حزب اختلاف کو تو زندگی بخشی ہے ساتھ میں عوام میں ایک امید کی کرن بھی پیدا کی ہے۔ کم ہی ایسی مثال ملتی ہے کہ کوئی سیاست داں مخالف ماحول میں اپنی شبیہ تبدیل کرنے میں کامیاب رہا ہو اور اس طرح بر سر اقتدار جماعت کے سامنے کھڑا رہا ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔