لوک سبھا انتخابات: عوام کی ترجیحات صرف اور صرف اپنے ایشوز ہوں
لوک سبھا انتخابات میں عوام کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور ایسی حکومت کا انتخاب کرنا ہوگا جو ان کے مسائل کو حل کرے نہ کہ صرف چند گھرانوں کی ترقی پر توجہ دے
لوک سبھا انتخابات کے اعلان سے عین پہلے نئے ریفری یعنی دو الیکشن کمشنروں کی نئے قانون کے مطابق تعناتی موضوع بحث نہیں ہے اور الیکٹورل بانڈ کے تعلق سے بھی ابھی ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنا نمائندہ انتخاب کرتے وقت اپنی ترجیحات طے کرے۔ اس کو ای وی ایم کا بٹن دباتے وقت یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس کے مستقبل کے لئے کیا ضروری ہے ؟ کیا اس کو اپنے لئے معیاری سڑکیں چاہئیں؟ کیا اس کو مہنگائی سے راحت ملنی چاہئے؟ کیا اس کو اپنی نوجوان نسل کے لئے نوکریاں چاہئیں ؟ کیا اس کو بجلی پانی جیسی سہولتیں درکار ہیں یا اس کی ترجیحات اپنے مستقبل کے لئے نہیں بلکہ چند افراد کے مستقبل کی ترقی ہونی چاہئے یا اس کے مسائل کا حل مذہبی ترقی میں روپوش ہے؟
جمہوری نظام کا مطلب صاف ہے کہ اگر کوئی بھی منتخب حکومت عوام کے لئے کام نہیں کرتی تو اس کو ایک طے شدہ مدت کے بعد بدل دینا چاہئے اور اس جماعت کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دینی چاہئے جس کے تعلق سے عوام کو لگے کہ وہ جماعت اس کے ایشوز اور مسائل پر زیادہ توجہ دے گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اصولی طور پر جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے لیکن اس نظام میں بھی وہی کامیاب ہوتے ہیں اور اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو ہر لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں یعنی پیسے، افرادی قوت اور تعلقات کے اعتبار سے ۔ پیسے کا کامیابی میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ پیسے کی وجہ سے ہی ان کی بات زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، پیسے کی طاقت کی وجہ سے ہی وہ عوام کو لالچ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یعنی پیسے کے آگے دم توڑ دیتی ہیں عوام کی ترجیحات۔
اگر بر سر اقتدار جماعت یا اتحاد اپنی کامیابی کے لئے عوام کے ایشوز کی فکر نہ کر کے ان گھرانوں کی فکر کرنے لگیں جن کے پاس سے پیسہ آنا ہے۔ اس عمل سے سیاسی پارٹی کو کامیابی تو ضرور مل جاتی ہے لیکن عوام کے ایشوز کہیں نہ کہیں پیسہ کے نیچے دفن ہو جاتے ہیں ۔ اب یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہوتا ہے کہ اس کے ایشوز دفن ہو جائیں یا اس کے ایشوز پر توجہ دی جائے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کارپوریٹ گھرانے یا پیسے والے ملک کی ترقی اور عوام کی سہولتوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن حکومت وقت کے پاس ان گھرانوں کی ترقی اور عوام کے ایشوز و ملک کی ترقی کے درمیان بہت باریک لکیر ہوتی ہے ۔ اگر حکومت وقت ان گھرانوں کی ترقی میں اپنی توجہ زیادہ صرف کرتی ہے تو بر سر اقتدار سیاسی جماعت یا اتحاد کو تو تو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن اس عمل کے دوران ملک کی ترقی اور عوامی ایشوز کہیں نہ کہیں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔
برسراقتدار سیاسی جماعت یا اتحاد کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ کسی خاص مذہب کی ترقی یا کچھ خاص لوگوں کی ترقی کے لئے نہیں ہے ۔ ہمارا ملک کیونکہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کو ماننے والے لوگوں کا ملک ہے اس لئے حکومت کو اپنے ہر فیصلے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کے عمل سے کہیں کسی طبقہ یا ثقافت کو نقصان تو نہیں ہو رہا یا کسی کو غیر ضروری توجہ تو نہیں مل رہی۔ حکومت وقت کو یہ سب چیزیں ذہن میں رکھنی چاہئے اور ظاہر ہے ایسی ہی سوچ عوام کی بھی ہونی چاہئے اور اگر عوام کی ایسی سوچ نہیں ہو گی تو ایک خاص فرقہ کو یا ایک خاص مذہب کو تو فائدہ ہوگا لیکن کہیں نہ کہیں ملک اور عوامی ایشوز پیچھے رہ جائیں گے۔
عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی طرح جمہوریت کے بہترین پہلووں کو زندہ رکھے تاکہ منتخب حکومت ان کے ایشوز کو ترجیح دے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کسی خاص گھرانے، طبقہ یا مذہب کی ترقی کے بارے میں نہ سوچے بلکہ صرف اور صرف ملک کی ترقی کے بارے میں سوچے۔ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اگر عوام اپنی ترجیحات اپنے مسائل اور ایشوز رکھے گی تو یہ مشکل نہیں رہے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔